”جسے تو آساں سمجھتا ہے اسے آساں نہ سمجھ“

منگل 22 دسمبر 2020

Ahmed Khan

احمد خان

آبیل مجھے مار کا محاورہ ہمارے ہر دل عز یز حکمرانو ں اور ان کے مصاحبین پر حرف بہ حرف ججتا ہے جب سے حزب اختلاف کے لبوں سے استعفوں کی بات پھسلی ہے حکمراں جماعت کی جانب سے حزب اختلاف کے مستعفی ہو نے کو ” چھیڑ “ بنا دیا گیا ، ہر وزیر ہر حکومتی رکن حزب اختلاف کو ” غیرت “ دلا نے پر تلا نظر آتا ہے ، بات کچھ چل رہی ہو تی ہے مو ضو ع گفتگو کچھ اور ہو تاہے حکومت کے اعلی دماغ مگر بات کو گھما پھرا کر حزب اختلاف کو مستعفی ہو نے کی جانب مو ڑ دیتے ہیں ، حکمراں جماعت کے زعما ء کی جانب سے تکرار سے کہا جارہا ہے کہ حزب اختلاف کی پارلیمان سے رخصتی پر شادیانے بجا ئے جا ئیں گے بہت سے کر م فر ما فر ما تے ہیں کہ حزب اختلاف کی خالی نشستوں پر حکومت چٹکی بجاتے ضمنی انتخابات کا کھیل رچا دے گی ، ہو کیا رہا ہے ، سچ پو چھیے تو حکمراں جماعت خود آگ سے کھیلنے پر تلی ہے اولاً اگر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والی جماعتیں پارلیمان کو خدا حافظ کہہ دیتی ہیں عملا ً حکومت کے لیے ڈھیروں ڈھیر نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانا قطعاً آساں نہیں جمہوری اقدار کو سمجھنے اور جاننے والے خوب جانتے ہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف جمہو ری عمل کا لازمی جز ہوا کر تے ہیں اگر حزب اختلاف جمہو ری ایوانوں سے احتجاجاً رخصت پر چلی جاتی ہے اس صورت حکومت وقت پر دانستہ یا نا دانستہ سیاسی دبا ؤ از خود بڑھ جا ئے گا ، دوم جمہو ری ایوانوں سے رخصتی کے بعد کیا حزب اختلاف سے جڑی جماعتیں خاموشی سے گھر بیٹھے جا ئیں گی ، سیاسیات کا ادنی طالب علم بھی اس سوال کے جواب سے آشنا ہے ، استعفوں کے بعد حکومت اور حزب اختلاف کے درمیاں گھمسان کا معر کہ بر پا ہو گااگر حزب اختلاف استعفوں کا کڑوا گھو نٹ طو عاً کر ھا ً حلق سے اتار لیتی ہے اس کے بعد حزب اختلاف کا ” چاک گریباں “ ہر قدم پر حکومت کا پیچھا کر ے گاسڑ کیں ہو ں گی اور حکومت مخالف سیاسی جماعتیں ہوں گی ، دن میں حکومت کے خلاف گر ماگرم پر یس کا نفرنس اور نیوز کا نفرنس گویا روز کا معمول ہوں گی ، حزب اختلاف کے زعما ء کا گر جنا برسنا ہو گا اور حکومت ہو گی ، ایک لمحے کے لیے ” تصو ر جانا ں “ کر لیجیے ، پاکستانی سیاست میں جلا ؤ گھیراؤ پکڑو پکڑاؤ کا سلسلہ زوروں پر ہو گا ، کیا سیاسی افراتفری میں حکومت چین کی بانسری بجا سکے گی ، جلسوں اور جلوسوں کا مقابلہ وقت کے حکمراں کیسے کر سکیں گے ، اس تمام قصہ کہانی میں زمینی حقائق کو جانچنے میں کو ئی حرج مانع نہیں ، گرانی بے روز گاری کھلے عام لو ٹ کھسوٹ اور عوام کے معمولی معمولی امور میں حکومتی اداروں کی جانب سے پیدا کر دہ ” خواہ مخواہ “ قسم کی رکا وٹوں نے عوامی حلقوں کو حکمران جماعت سے اچھا بھلا” دور “ کر دیا ہے ، حکومت کس کا رہا ئے نما یاں کے نام نامی اسم گرامی پر عوام سے ہمد ردیاں سمیٹے گی ، حکومت نے عوام کی آسانی کے لیے کو ن ساکا رنامہ سر انجام دیا ، کیا پولیس کو حکومت نے عوام دوست ادارہ بنا دیا ، کیا حکومت نے گرانی کے جن کو بوتل میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیا، کیا حکومت کروڑوں کو چھو ڑ ئیے لا کھوں نو کریاں دینے کے وعدے کو عملی جامہ پہنانے کی جانب ایک قدم بھی اٹھا سکی ، کیا حکومت لا قانونیت کو نکیل ڈالنے میں صد فی صد نہ سہی اس کے آدھ ہی سہی کامران ہو سکی ، انصاف کی تیز تر فراہمی کا وعدہ بھی حکمراں جماعت کے احباب کے لبوں پر ہمہ وقت مچلتا تھا ذرا بتلا ئیے عوام کو فوری اور سستے انصاف کی فراہمی میں حکومت نے کون سے گل کھلا ئے ، تحریک انصا ف سے جڑے اور حکومت وقت کے خیر خواہوں کو شاید یہ سطور بھلی نہ لگیں ، حقائق مگر یہی ہیں کہ انتظامی سطح پر ” گول مو ل “ سی پالیسیوں کا چلن عام ہے ، سفارش کے بغیر کسی ادارے میں عام شہری کے جائز کا م بھی نہیں ہو رہے ، کھلے بندوں ” لے دے “ کا سلسلہ عروج پر ہے ، ان حالات میں جبکہ عوامی حلقوں میں حکومت سے ناراضی کی جھلک واضح طور پر نظر آرہی ہے ، حکومت عوام کے پاس کیسے جا ئے گی اور کس طرح سے ووٹ ما نگے گی ، جناب خان کو ان کے اکابرین شاید سب اچھا ہے کی رپورٹ دے رہے ہیں مگر سب اچھا نہیں ہے ، عوام کے جذبات خیالات اور احساسات میں بہت تبدیلی آچکی ہے ، دانش مندی کا تقاضا ہے ، عوام کی خدمت پر اپنی توجہ صد فی صد مر کوز کر لیجیے ، عوام کی آسانیوں کے لیے اپنی جان لڑا دیجیے اور ہاں حزب اختلاف کے ساتھ خواہ مخواہ سینگ اڑانے سے پر ہیز ہی بہتر ہے ، حکومت کا لطف اٹھا ئیے اور حزب اختلاف کو ساتھ لے کر چلنے اور چلا نے کی تد بیراپنا ئیے ، اقتدار کی کر سی کو بہت سے ” اپنا “ سمجھتے رہے آج مگر اقتدار کی کرسی ہے اور وہ رزق خاک ہو چکے ، وطن عزیز کوایک نئے بحران میں دھکیلنے کے بجا ئے ” مائی باپ “ کا رویہ اختیار کر کے سیاست کے ایوانوں اور عوامی چوباروں کے مسائل حل کر نے کی راہ اپنا ئیے ، چنگیز خان بننے سے کچھ حاصل وصول نہیں ہو گا مان لیجیے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :