عوام کے دانت کھٹے کر نے کے لیے آئی ایم ایف پھر سے دانت تیز کر نے میں مگن ہے قرضے کی اگلی کی قسط کے لیے آئی ایم ایف کی پتر سولی چڑھ جا قسم کی شرائط گر دش کر رہی ہیں ، آئی ایم ایف کی شرائط ما ننے کا مطلب سیدھے سبھا ؤ یہی ہے کہ عوام کا جینا مزید محال تر ہو جا ئے گا ، جان عز یز کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے کہ اب آئی ایم ایف کی ” مے “ کے بغیر جینا حکومتی احباب اریب قریب ناممکن قرار دیتے ہیں عموماً ملکوں کی سطح پر قرض ملک کی معاشی حالت کو سنوارنے کے لیے لیا جاتا ہے لیکن محب وطن حکمران ملکی ضرورت پوری ہوتے ہی فوراً سے قبل غیر ملکی قر ض سے ملک کی گردن چھڑانے کی سبیل کر تے ہیں ، دنیا کے نقشے پربہت سے ایسے ممالک کے نام جگ مگ جگ مگ کر رہے ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف یا اس قبیل کے اداروں سے ملکی ضرورت کے لیے قرضہ لیا مگر ان ممالک کے حکمرانوں نے ” ہنگامی حالت “ سے نکل کر ساہو کار اداروں سے پہلی فر صت میں اپنے ملک اور قوم کی گردن ” واگزار “ کرائی ، مملکت خداداد پاکستان کے حکمرانوں کو مگر قرض کی مے ایسے راس آئی کہ تو بہ ہی بھلی، قرض لینے کی لت نے کیا گل کھلا ئے ، ہر دور کے حکمران اقتدار میں آنے سے قبل غیر ملکی قرض نہ لینے اور ملک کو قرضوں کی جال سے چھڑوانے کی کے دعوے کر تے رہے ، اقتدار میں آنے کے بعد مگر ہر حکمران غیر ملکی ساہو کار اداروں سے قرض پہ قرض لینے کی رسم بد نبھا تا رہا ، دراصل قرضوں کی جال میں ایک اچھا بھلا ملک کیسے پھنستا چلا گیا ، ذاتی مفاد کے گر ویدہ حکمران قر ض بٹورتے رہے اور قرضوں کی رقوم کا بڑا حصہ اپنی ذات اپنے مفادات اور اپنے قبیلے کو نوازنے پر صرف کر تے رہے یعنی غیر ملکی قر ضوں کا کثیر حصہ حکمران قبیلہ اپنی جیبوں میں ٹھو نستا رہا دوسری جانب غیر ملکی قسط دینے کی باری آنے پر تمام بوجھ عوام کے کندھوں پر منتقل کیا جاتا رہا ، ، بجلی گیس کی قیمتیں کیو ں بڑھیں ، عوام پر بے جا قسم کے محصولات کا بوجھ کیوں لا دا گیا ، اس لیے کہ عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال کر غیر ملکی قر ضے کی قسط ادا کی جاسکے ، اس سارے قضیے میں اندر خانے کیا کھیل کھیلا جاتا رہا ، یہ کہ ”مکھن “ حکمران قبیلہ کھا تا رہا اور اس ” مکھن “ کی قیمت عوام کو ادا کر نے کی ذمہ داری سونپی گئی ، ہر دور کے حکمرانوں کی زبانوں سے عوام ایک فرمان تواتر اور تسلسل سے سن رہی ہے کہ قوموں کی زند گی میں سخت وقت آتا ہے ، قوموں کو مشکل کی گھڑی میں قر بانی دینی پڑ تی ہے ، بجا فرما تے ہیں طبقہ ہا ئے حکمران مگر حضور کبھی حکمران طبقے نے بھی کھٹن گھڑی میں اپنی لٹی پٹی رعایا کی آسانی کے لیے قر بانی دی ، کس صدر مملکت نے صدر ہا ؤس کے اخراجات میں کٹوتی کی عملی مثال قائم کی ، کس صدر مملکت نے بغیر تنخواہ مراعات اور ہٹو بچو طر ز کے شاہا نہ بود و باش سے دستبر داری کی راہ اپنا ئی ، ،کون سا وزیر اعظم ہے جو حقیقی معنوں میں عوام کی فکر میں ہلکان ہوا ، کس وزیر اعظم نے اپنے وزراء اور حکومتی مصاحبین کے اللوں تللوں پر قد غن لگا ئی ، کس حکومتی سر براہ نے ایم این اے ایم پی اے کی تنخواہوں مراعات اور فنڈ پر کٹ لگا یا ، کس حکومتی سربراہ نے ” سر کاری پیادوں “ کی عیش و عشرت کو عملا ً سادگی کے قلب میں ڈھالا ، کل کے وزیر اعظم کے انداز بھی خسراوانہ تھے آج کے وزیر اعظم کی ” چال ڈھال “ بھی اریب قریب وہی ہے ، کل کے وزیر کبیر بھی سر کار کے خرچ پر ” ہٹو بچو “ کا سرکس لگا تے تھے آج کے وزیر کبیر بھی ” ہٹو بچو “ کے جلوس میں جلوہ گر ہو تے ہیں ، ماضی بعید اور ماضی قریب میں بھی سرکار کا پیسہ پانی کی طرح بہا یا جاتا تھا اریب قریب آج بھی سرکارکی تجوری حکمران طبقے کے لیے ہمہ وقت کھلی ہے اگر حکمرانی سطح پر ملک و قوم کے حالات کا احساس اور ادراک ہو تا ، یقین کیجیے آج پاکستان بھی چین ترکی اور فرانس کی طر ح معاشی لحاظ سے خوش حالی کے ساتویں آسماں پر ہوتاآج پاکستان کی فی کس آمدنی بھی بر طانیہ کی فی کس آمدنی کے برابر ہو تی آج پاکستان بھی انتظامی امور چلا نے کے لیے ادھر ادھر دیکھنے کی زحمت نہ کر تا آج پاکستان میں بھی گرانی اور بے روزگاری جیسی وبا عام نہ ہو تی ، افسوس مگر یہ ہے کہ جس ملک کے صدقے حکمران قبیلے کو عزت شہرت اور دولت ملی حکمران قبیلے نے رتی برابر ذاتی مفاد اور اپنی عیاشی کے لیے اپنے اسی ” محسن “ کو قر ضوں کی جال میں ایسے پھنسایا جس سے نکلتے نکلتے شاید ایک زمانہ لگے ، کیا کبھی یہ سلسلہ رک سکے گا ،ملک کی حالت اس وقت سنور سکتی ہے جب ہر شہری ذاتی مفاد کے بجا ئے ملکی مفاد کے لیے جان لڑا نے کا عہد کر ے جب تک پاکستانی قوم ” ٹکڑوں “ میں بٹی رہے گی اس وقت تک طاقت ور قبیلہ اسی طر ح عوام کے حقوق غصب کر تا رہے گا چا ہے آپ اتفاق کر یں یا نہ کر یں ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔