”ہائے وہ وعدے جو رزق خاک ہو ئے“

منگل 19 جنوری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

اقتدار کے کو ہ ہمالیہ پر چڑھنے کے بعد حکمران طبقے کو عوام حقیر مخلو ق نظر آتے ہیں ، مصائب میں گھر ے عوام چیختے ہیں اپنے مسائل کے حل کے لیے حکمرانوں کی منتیں ترلے کر تے ہیں ، ارباب اقتدار کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں حکمرانوں کے سامنے گڑ گڑ اتے ہیں ، صدائے احتجاج بلند کر تے ہیں ، عوام کی تمام تر منت سماجت کا حکمران طبقے پر مگر اثر نہیں ہوتا ، اقتدار کی کرسی پر براجمان صاحبان اقتدار اپنی مخصوص عینک سے عوامی معاملات کو دیکھتے ہیں ، اپنی ” فطانت “ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہو ئے ملکی نظم و نسق کو چلاتے ہیں ، عوام کی امنگوں سے بے نیازی اختیار کر لینے کے باوجود اقتدارکے رسیا اسی گماں میں مبتلا رہتے ہیں کہ تمام تر عوام دشمن پالیسیوں اور اقدامات کے باوجود عوام ان کے لیے ” سدا جیتے رہیں “جیسے احساسات اور جذبات رکھتے ہیں دراصل یہی وہ غلط فہمی ہے جو ہر حکمراں کو ناکامی کے پاتال میں گرادیتی ہے ، ہمارے حکمرانوں کی عقل سلیم اس وقت ٹھکانے پر آتی ہے جب چڑیا کھیت جگ چکی ہوتی ہیں ، حال کے حکمرانوں کا قصہ بھی سابق ادوار کے حکمران قبیلے سے ملتا جلتا ہے ، حکومت کے بہت سے ” خیر خواہ “ پی ڈی ایم کو حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی قرار دیتے ہیں ، غیر جانب دار حلقے بھی اس معاملے میں اپنا وزن اسی نکتے کے پلڑے میں ڈالتے ہیں ، سیاست کے رموز اوقاف کے ہنر سے لیس احباب کا نکتہ بہ سر وچشم حکومت مگر پی ڈی ایم کی ہا ہا کار سے گھر جا نے والی نہیں نہ ہی انصافین حکومت کے لیے پی ڈی ایم کوئی ” گڑھا “ کھو دنے میں کامران ہوسکتی ہے ، یار رکھیے حکومتیں اپنی ” کر توتوں “ سے کو چہ اقتدار سے رخصت ہوا کرتی ہیں ، مو جودہ حکومت کی چال ڈھال ملا حظہ کر لیجیے ، حکومت کا مقابلہ اپنی ذات اپنی ” صفات“ اپنے اقدامات اور اپنی پالیسیوں سے زور دار انداز میں چل رہا ہے قریباً تین سالوں سے تحریک انصاف حکومت جس طر ح سے اپنی پالیسیاں رواں رکھے ہو ئے ہے ، حکومت کی اپنی پالیسیاں ہی عوامی حلقوں میں اس کی بد نامی کا باعث بن رہی ہیں ، اگر حکومت من و عن اپنا باقی ماندہ وقت بھی انہی پالیسیوں کا چلن بلاکم و کاست جاری رکھتی ہے ، تحریک انصاف حکومت کو چلتا کر نے کے لیے کسی بیرونی ہاتھ کی چنداں ضرورت ہی نہ پڑ ے ، زمینی حقائق کیا ہیں ، عوام کا کو ئی طبقہ بھی حکومت سے خوش نہیں ، مزدور طبقہ گرانی کے ہاتھوں رسوا ہے ، متوسط طبقے کا حال بھی راج مزدور سے ملتا جلتا ہے ، نجی اداروں کے ملا زمین کو روزگار بچا نے کی پڑی ہے ، ملک بھر کے سرکاری ملا زمین گرانی کے ہاتھوں سڑ کوں کو آباد کیے ہو ئے ہیں براہ راست عوام سے لگ کھا نے والے معاملات کا گویا حال ابتر ہے ، حکومت کی ” بے نیازی “ کی وجہ سے ایک سما جی افراتفری اکتاہٹ اور بے برکتی کی سی فضا پھل پھو ل رہی ہے ، حکومت کے ” دانا “ سب اچھا ہے سب اچھا ہوگا کی گردان کر تے نظر آتے ہیں چند ایک حکومتی زعما جو عوم کے نباض ہیں انہیں کامل طور پر ادارک ہے کہ عوام کے بنیادی مسائل ھل نہیں ہورہے بلکہ حکومت کی بے توجہی سے بڑھ رہے ہیں وہ لچھے دار لب و لہجے میں عوام کو طفل تسلی دینے کا ہنر اپنا ئے ہو ئے ہیں ، عوام کے پیٹ مگر محض طفل تسلیوں سے پر باش ہونے والے نہیں ، عوام کیا چا ہتے ہیں ، عوام اپنے مسائل کا ٹھو س بنیادوں پر حل چا ہتے ہیں عوام گرانی کے عذاب سے چھٹکا را چا ہتے ہیں ، عوام بلا تعطل سستی گیس سستی بجلی سستی روٹی کی فراہمی چاہتے ہیں ، عوام قانون کی پاسداری چاہتے ہیں ، عوام کی کم نصیبی مگر ملا حظہ کیجیے، حکومت وقت کے اعلی دماغ عوام کے ان بنیادی مطالبات کے آگے ہنوز بند باندھنے سے قاصر ہیں ، تلخ زمینی حقائق چیخ چیخ کر حکومت وقت کی عوام سے بے زاری عیاں کر رہے ہیں ، حکومت مگر زمینی حقائق سے نظر یں چرائے اپنے اللوں تللوں میں الجھی ہو ئی ہے ، سیاسی افراتفر ی اور سماجی سطح پر عوام میں بے چینی کی لہر کے نتائج کیا نکلا کر تے ہیں ، سیاست کے الف بے سے شد بد رکھنے والا ہر شہری بھلے طور پر جانتا ہے کہ عوام سے بے نیازی اختیار کر نے والی حکومت کا انجام ہمیشہ ’ درد ناک “ ہوا کر تا ہے ، سیاست کے نباض انصافین حکومت کی اختیار کر دہ پالیسیوں کو ہی حکومت وقت کے لیے سب سے بڑا خطر ہ قرار دے رہے ہیں ، حکومت کے مخلص رفقا ء عوام میں پائی جا نے والی بے چینی سے حکومت کے کر م فر ما ؤ ں کو گا ہے گاہے اشاروں کنایوں کبھی سیدھے سبھا ؤ آگاہ کر نے کا فریضہ سرانجام د ے رہے ہیں ، اقتدارکے ایوانوں کے مکین اپنے رفقاء کے مشوروں پر مگر دھیان سے گریز پا ہیں ، حکومت کے کمان داروں کی اس طو طا چشمی کے نتائج کیا سامنے آرہے ہیں ، عیاں سی بات ہے کہ عوام میں حکومت کی مقبولیت تیزی سے گر تی چلی جا رہی ہے ، جب کو ئی حکومت عوام کی نظر وں میں ” بے وفا “ ٹھہر جا ئے اس حکومت کے دن پھر جلد ہی تنزلی کی طرف پھر جا یاکر تے ہیں، اقتدار کے کو ہمالیہ پر براجمان حکمران طبقے کو مگر اس کا شاید ادراک نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :