” انجام گلستاں کیا ہو گا “

بدھ 10 فروری 2021

Ahmed Khan

احمد خان

خبر ہے کہ جناب خان حکومت نے ستر ہزار نوکر یا ں ختم کر نے کے لیے کمر کس لی ہے بات صرف ستر ہزار نوکریوں سے جاں خلاصی تک ہی محدود نہیں بھوکے ننگے عوام کو یہ خوش خبری بھی سنا ئی گئی ہے کہ سرکا ر کے سایہ عاطفت میں چلنے والے بہت سے محکموں کو بھی تالے لگا نے کے لیے کاغذوں کا پیٹ بھرا جارہا ہے ، عوام کے مفاد سے لگ کھا نے والے اچھے بھلے سرکاری اداروں کا بوجھ سرکار کے کاندھوں سے اتار کر نجی ہاتھوں میں دینے کے لیے تیاریاں زور و شور سے جاری ہیں ، ایک ایساملک جہاں روزگار کاحصول ”مسئلہ کشمیر “ سے کسی طور کم نہیں ایک ایسا ملک جہاں روز گار کے مواقع اریب قریب نہ ہو نے کے برابر ہیں اس ملک کے درماں نصیبوں سے روزی روٹی چھیننے کا فیصلہ حکومت کی سطح پر طے ہو چکا ، سر کار کے کمان داری میں چلنے والے کئی اداروں کی نج کاری مر حلہ وار شروع ہو چکی باقی ماندہ اداروں اور ان اداروں میں فرائض منصبی سرانجام دینے والوں سے چھٹکارے کے لیے بس ” رسماً “ کا رروائی باقی ہے ، سیدھے سبھا ؤ یہ کہ ان ا داروں کے چل چلا ؤ کا وقت بھی سر پر آپہنچا ہے ، کیا حکومتوں کا کام بس یہی رہ گیا کہ سرکار کے اداروں کو بیچ باچ کر چین سے حکمرانی کا لطف لیا جائے ، رعا یا کے غم میں دن رات گھلنے والے حکمراں تواپنی رعایا کی معاشی زندگیوں میں خوش حالی کا چلن عام کر نے کے لیے نت نئے منصوبوں پرمغز کھپائی کر تے ہیں رعایا کی فی کس آمدنی میں بڑ ھوتری کے لیے سو جتن کر تے ہیں ، سرکار کے زیر سایہ اور نجی ہاتھوں میں کام کر نے والے اداروں کو رواں رکھنے کے لیے جامع اور عوام دوست پالیسیوں کو سر بازار کرتے ہیں ، کسی بھی ریاست کی خوش حالی کا انحصار اس ریاست میں بسنے والوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پر ہوتا ہے ، جس ریاست میں روز گار کے مواقع ریاعا کو میسر ہو تے ہیں اس ریاست کے عوام کی انفرادی معیشت مستحکم ہوتی ہے ، شہر یوں کی معاشی خوش حالی ہی دراصل ریاست کی معاشی خو ش حالی تصور کی جاتی ہے ،شہری اپنے خون پسینے کی کمائی سے اپنا اور اپنے اہل و عیال کا پیٹ بھی پالتے ہیں اور ریاست کی تجوری بھی بھر تے ہیں ، ہمارے حکمرانوں کا مگر باوا آدم نرالہ ہے جو بھی اقتدار میں آئے انہوں نے عوام کی کھال اتارنے پر اپنی توجہ مر کوز رکھی،ماضی کے حکمرانوں کی طرح حال کے حکمرانوں کا حال بھی کچھ ایسا ویسا ہی ہے سو لا کھوں کروڑوں نوکریاں دینے والوں کے لچھن بھی ملاحظہ کیجئے جس ملک میں بے روز گاری ایک قومی مسئلہ بن چکی ہو اس ملک کے اقتدار پر براجمان حکمران اپنی رعایا کو حکومت پر بوجھ سمجھ کر ان سے روز گار چھیننے کے لیے ” خلوص دل “ سے پر عزم ہیں ، جس ملک میں روز گارکا حصول جو ئے شیر لا نے کے مترادف ہو جس ملک میں روزگار کے دروازوں کو تالے لگے ہوں ، جس ملک کی رعایا روزگار کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھا رہی ہو اس ریاست کے ” والی “ اپنی رعایا سے لگالگایا روزگار چھیننے کے لیے کمر بستہ ہو ں ، ایسے حکمرانوں کو بھلاخلق خدا کیسے سروں کا تاج بنا سکتی ہے ، زمینی حقائق چیخ چیخ کر کیا کہہ رہے ہیں ، نوجواں طبقہ ڈگریاں ہاتھوں میں لیے روزگار کی تلاش بسیار میں ہے ،جن کو روز گار کسی طور حاصل ہے انہیں اپنی نو کریاں بچانے کی پڑ ی ہے ، لگے دوسالوں سے سرکاری ملا زمین کے ساتھ حکومت کا سوتیلا پن اپنا رنگ خوب دکھا رہا ہے ، چند ہزار پر کام کر نے والے ملا زمین کا جینا گرانی نے حرام کر رکھا ہے ستم بلا ئے ستم ملا حظہ کیجیے کہ حکومت ان لا کھوں ملازمین کے بار بار مطالبات کے باوجود ان کی قلیل تنخواہوں میں اضافے کے معاملے میں ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے ، حکومت کی جانب سے اس” کھٹور پن “ کے خلاف کئی ماہ سے ملک بھر کے ملازمین مایوسی اور بے چینی کی ردا اوڑھے سڑکوں پر ہیں ، بے روزگار فوج الگ سے حکومت کے خلاف دلوں میں ” ابال “ جمع کیے حکومت سے مایوس ہے ، حکومت کی ” عجب “ طرز کی معا شی پا لیسیوں سے معاشرے کا ہر طبقہ پریشاں ہے ، حکومت کی ان الم غلم معاشی پالیسیوں کے نتائج کیا نکل رہے ہیں ، سرکار کے کمان داری میں چلنے والے اداروں کے ملازمین قلیل تنخواہوں کی وجہ سے مایوسی کاشکار ہیں دوسری جانب حکومت کی انوکھی معاشی پالیسیوں کی وجہ سے نجی اداروں کے ملا زمین نوکریوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں ، گرانی نے الگ سے متوسط طبقات کی دماغوں کو شل کر رکھا ہے ، عملا ً کیا صورت حال ہے خلق خدا معاشی گرداب میں پھنسی آہ وبکا کر رہی ہے ، عوام کاہر طبقہ فکر حکومت کی غضب چال ڈھال پر حیراں و پریشاں ہے ، عوامی سطح پر اس اجتماعی اکتاہٹ کا کیا انجام ہو گا ، رائے عامہ سے جڑے حلقے اس سوال کے جواب سے خوب آگاہ ہیں بس گلستاں کے ” مالیوں “ کو حالات کا ادراک نہیں ، کاش اربوں کھر بوں کے مالک حکمراں رعا یا کی حالت زار جان سکیں کہ رعایا ان حالات میں سانس اور جسم کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے کیا کیا جتن کر رہی ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :