” مات “

ہفتہ 6 مارچ 2021

Ahmed Khan

احمد خان

جس کسی نے بھی یوسف رضا گیلا نی کو مقابلے میں اتارنے اور پھر ان کی جیت کے لیے تانے بانے بنے اس کی ذہانت اور فطانت کو داد دیجیے ، یوسف رضا گیلا نی کو میدان میں خوب ذہن سوزی اور ذہن سازی کے بعد اتارا گیا یوسف رضا گیلا نی طویل عرصہ سے سیاست میں ہیں ان کے سیاسی مراسم اریب قریب تمام سیاسی جماعتوں سے ہیں ، ممبران اسمبلی سے ان کی ” دلی قربت “ کے بھی خوب چر چے ہیں ، اپنی جماعت کے ”ولی“ ہو نے کے ساتھ ساتھ حریف اور حلیف سیاسی جماعتوں سے بھی ان کے اچھے بھلے تعلقات ہیں، حالیہ ” ضدا ضدی “ کے ماحول میں نہ صرف پی پی پی بلکہ پورا اختلافی اتحاد بھی یوسف رضا گیلا نی کو جتوانے اور حکومت کو دھول چٹوانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا ئے ہو ئے تھا ، حکومتی امید وار اور گیلا نی کے مقابلے میں ” فرق “ جہانگیر ترین کا تھا اگر جہانگیر ترین حکومتی امید وار کے لیے ” تہ دل “ سے سر گرم ہوتے شاید گنتی کے چند ووٹوں سے ہی سہی مگر حکومتی امید وار جیت جاتا اور گیلا نی ہار جا تے ، حالیہ مقابلے میں مگر جہانگیر ترین نے حکومت کے لیے اس طر ح سے اپنا ” کندھا “ پیش نہیں کیا جس طر ح سے ماضی میں وہ مشکل وقت میں تحریک انصاف کی کشتی کو پار لگا نے کے لیے کردار ادا کر تے رہے ہیں ، حکومتی امیداور کے ہارنے کے بعد شاید جناب خان کو احساس ہوا ہو کہ جنہوں نے خان ترین جو ڑے کو ” توڑا “ وہ خان کے دوست نہیں بلکہ دشمن تھے ، یوسف رضا گیلا نی کی جیت میں جناب حفیظ شیخ کے اپنے مزاج اور چال ڈھال کا بھی بڑا دخل رہا ، جناب شیخ کا” مزاج مبارک“ یوسف رضاگیلانی کے مزاج کے بالکل بر عکس ہے ، حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے ممبران اسمبلی کو رکھیے ایک طرف جناب شیخ کے حکومتی ممبران اسمبلی سے تعلقات واجب سطح سے بھی کم تھے ، حفیظ شیخ کے ہارنے میں ان کے ” نتہا پسند “ مزاج نے بھی گویا اچھا بھلا کر دار ادا کیا ، ذرا س سے آگے چلتے ہیں ، قومی اسمبلی کے ممبران عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں سو ممبران اسمبلی کے مزاج میں عام طور پر ایک ” عوامی زعم “ کا عنصر پا یا جاتا ہے ، عموی طور پر اپنے وزیر اعظم اور وزراء سے حکومتی ممبران اسمبلی اپنا ” لاڈ “اٹھواتے ہیں ،ادھر مگر جناب خان جیسے ہی وزیر اعظم بنے انہوں نے اپنی جماعت کے ممبران اسمبلی سے ایک طر ح سے ر بط ضبط توڑ دیا تھا ، حکومتی ممبران اسمبلی کی رسائی جناب خان تک نہ ہو نے کے برابر تھی حکومتی جماعت سے ناطہ رکھنے والے ممبران اسمبلی اس طر ح نظر انداز ہو نے پر سخت نالا ں تھے ، جب حالیہ افتاد حکومت کے سر پڑی تب جناب خان نے سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کر اپنے ممبران اسمبلی پراپنے تہی صدقے واری ہو نے کی ہر وہ کوشش کی جو وہ کر سکتے تھے، ان سے ملتے بھی رہے ان کی شکا یات بھی سنتے رہے اور ان کے مطالبات کے حل کی یقین دہا نی بھی کرواتے رہے ، لگے کم وپیش تین سالوں میں جس طر ح کے حالات سے ممبران اسمبلی گزرے ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالیہ ” کھیل “ میں انہو ں نے ووٹ کے ذریعے سے بدلہ لینے کی کو شش کی ہے ، گیلا نی کے جیتنے کے بعد کم از کم انصافین حکومت پر ایک بات تو روز روشن کی طر ح عیاں ہو گئی وہ یہ کہ جمہو ریت میں ” شاہانہ مزاج “ سے حکومت نہیں چلا ئی جاتی ، وزرات عظمی کی نشست پر براجمان راجہ اندر کو کبھی اپنی بات منوانی پڑ تی ہیں اورکسی مو اقع پر اپنے ہم نواؤں کی بات پر امین کہنا پڑ تا ہے اگر جناب خان اپنے ممبران اسمبلی کو تکریم دیتے اپنے ممبران اسمبلی سے ربط ضبط رکھتے ان کے حلقوں کے جائز مسائل حل کر تے شاید ایوان بالا کے انتخاب میں حکومت کو پیش آمدہ ناز ک حالات کا سامنا نہ کر نا پڑ تا ، تحریک انصاف میں پانے والی اس ” کشا کش “ سے حزب اختلاف نے بھی جی بھر کر فائدہ اٹھا یا کہیں تعلقات کی ” چلمن “ اور جہاں تعلقات کی ” رسم “ کمزور تھی وہاں حسب روایت پیسہ پھینک تماشا دیکھ کا آزمود ہ نسخہ آزمایا گیا ، اس سارے قصے کا لب لباب کیا ہے، جناب خان اور ان کے وزراء کو اپنے ممبران اسمبلی سے دوستانہ نہ سہی کم از کم مخلصانہ تعلق ضرور استوار کر نا چا ہیے تھانہ تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی سربازار ہوتے نہ خریدار ان کی قیمت لگا تے اب بھی وقت ہے جناب خان اور ان کے ” مصاحبین خاص “ حالات کی نزاکت کو سمجھیں اور اپنے ممبران اسمبلی کو ” سنبھالنے“ کی سعی کر یں اسی میں حکمراں جماعت کا بھلا ہے ، اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کو بروئے کار لا کر اپنی مات کو جیت میں بدلنے کی روش اختیار کیجیے ورنہ حزب اختلاف نے حکومت کی کشتی میں جو سوراخ کیا ہے یہی سوراخ حکومتی کشتی کو ڈبونے کا باعث بن سکتا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :