” تشدد پہ تالیاں نہیں دشنام پہ واہ واہ نہیں “

جمعرات 25 مارچ 2021

Ahmed Khan

احمد خان

جناب شہباز گل بھی ” ناخوش گوار کلب“ کے طوعا ً کر ھا ً ہی سہی بہر حال رکن بن ہی گئے شہباز گل کو بھی اس ناخوش گواریت کے کرب سے گزرنا پڑا جس کر ب سے کچھ دن پہلے مسلم لیگ ن کے کابرین گزرے مسلم لیگ ن کے چند بڑوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ کے بعد سیاست سے شغف رکھنے والوں نے تنقیدکے اچھے بھلے نشتر چلا ئے ، سیاست میں وضع قطع کے خوگروں کی جانب سے یہ تنقید صد فی صد بجا بھی تھی سیاست نظریات دلا ئل اور منطق کا کھیل ہے، سیاست میں نظریات کے پر چار کے زور پر عوام کی ہمدردیاں سمیٹی جاتی ہیں ، عوام دوست منشور کے بل پر عوام کو ہم نو او ہم آواز بنایا جا تا ہے ، پاکستانی سیاست میں لیکن نظر یات کے بجا ئے زور زبردستی اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے کے عمل کو صائب تصور کیا جا نے لگا ہے ، سیاست میں ایک دوسرے کے گریبانوں پر ہاتھ ڈالنے کی رسم کے چل چلا ؤ سے وطن عزیز کی سیاست کسی حد تک دنگا فساد میں تبدیل ہوچکی ، ایک دوسرے کے خلاف ایسے ایسے بیانات داغے جاتے ہیں جن کا کم از کم سیاست اور سیاست کے قاعدوں سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوا کر تا ، سیاست میں بڑھتی تلخی اور ترشی کی سب سے بڑی وجہ نفرت سے لبریز لب ولہجے ہیں سخت الفاظ سے مزین بیانات سیاست میں گرما گر می کو ہوا دیا کرتے ہیں ، سیاست میں سر گرم اگرچہ بہت سے زعما ء ایسے ہیں جو پہلے تولو پھر بولو کی روایت کے امیں ہیں اپنے سیاسی مخالفین پر تنقید کر تے وقت بھی سیاست کی ” اداؤ ں “ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں ، ہر سیاسی جماعت میں مگر چند ایسے احباب ہیں جو اپنی سیاسی جماعت اور اپنی اپنی سیاسی قیادت سے وفاداری نبھا نے میں بہت دور تلک چلے جاتے ہیں کارزار سیاست کو دراصل ان چند جو شیلے سیاست دانوں نے ہی گرما رکھا ہے ، تکلیف دہ امر یہ ہے معدودے ان ” غصیلے پن “ کے وصف سے لیس سیاست دانوں کے بیانات کو ہی سنجیدہ لیا جاتا ہے اور انہی کے بیا ں کر دہ نکتے پر ہی ہر سیاسی جماعت اپنی ساری توانائیاں صرف کرتی نظر آتی ہے ، مسلم لیگ ن میں ڈھنگ سے بات کر نے والوں کی کمی نہیں ، پی پی پی میں بھی سلیقے سے مد عابیاں کر نے والوں کی ایک بڑی تعداد مو جود ہے ، تحریک انصاف میں ایسے احباب مو جود ہیں جو ” تو تو میں میں “کے بجا ئے سیاست کے قرینے میں رہ کر بات کر تے ہیں ، بڑی سیاسی جماعتوں میں ان نگینہ طرز سیاست دانوں کی نہ صرف قد ر و منزلت ہے بلکہ سیاسی مخالفین بھی ان کے لیے اپنے دل وا رکھتے ہیں حتی کہ بہت سے سیاسی رہنما ایسے ہیں جو بلا تفریق سیاست کے عوام کے دلوں میں بستے ہیں ، سیاست میں بس چند ایسے احباب ہیں جو بے سروپا بولتے ہیں اور خوب بولتے ہیں ، سیاسی جماعتوں میں موجود ان غصیلے احباب کی وجہ سے سیاسی پارہ یک دم بڑھ جاتا ہے جس کے اثرات پوری ملکی سیاست کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں ، حالیہ دنوں میں جس طرح سے تحریک انصاف کے کارکنوں نے مسلم لیگ ن کے زعماء کے ساتھ سلوک کیا عیاں سی بات ہے کہ اس طر ح کا طرز فکر تحریک انصاف کے ہر رہنما کا نہیں ہو سکتا جواباً پھر تحریک انصاف کے شہباز گل کے ساتھ ن لیگ کے کارکنوں نے جو کیا اس طر ح کے طرز عمل کو مسلم لیگ ن کے ہر کارکن اور رہنما پر ” فٹ “ نہیں کیا جاسکتا ، دوسروں میں برداشت کر نے کا جذبہ پی پی پی میں قدرے زیادہ پایا جاتا ہے ، ہو نا کیا چاہیے ایک ملک ایک ہی ملت کے ” ستارے“ ہو نے کے ناطے سیاست میں سیاسی جماعتوں کو تشدد اور دشنام سے پر ہیز اختیار کر نے کی راہ اپنا نی ہو گی ، جارحانہ سیاست ضرور کر یں کہ جارحانہ سیاست کے بغیر کو ئی بھی سیاسی جماعت عوام کے دلوں پر راج نہیں کر سکتی ،جارحانہ سیاست کے لیے مگر ” تلخی جام “کا ہو نا قطعاً ضروری نہیں ، ایک دوسرے کے نظریات اور عوامی مفادات کے باب میں ہر سیاسی جماعت کو اپنی اپنی سیاست آگے بڑھا نا چا ہیے ، تشدد اور دشنا م کا وار چا ہے جس سیاسی جماعت کی جانب سے ہو اس کے خلاف سبھی کو مو رچہ بند ہو نا ہوگا، المیہ کیا ہے ہر سیاسی جماعت کے”بڑے “ اپنے رہنما ؤں اور کارکنوں کی جانب سے روا رکھے جا نے والے تشدد اور دشنا م کا سختی سے نوٹس نہیں لیتے جس کی وجہ سے سیاست میں تشدد دشنام اور تذلیل کی روایت کچھ زیادہ ہی تیزی سے پختہ ہو تی جارہی ہے یادر رکھنے والی بات کیا ہے ، جب سیاست تشدد دشنام اور تذلیل سے کامل طورپر پاک ہوگی تب سیاست کا حسن صحیح معنوں میں چہار سو جلوہ گر ہوگا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :