” ْحضور!دھیرج “

ہفتہ 24 اپریل 2021

Ahmed Khan

احمد خان

جو کہتے ہیں وزارت عظمی پھو لوں کی سیج ہے صریحاً غلط کہتے ہیں اقتدار کی راہ گزرپر پھول کم اور کانٹے زیادہ بچھے ہیں ،حکمرانوں کو مخالفین ” میراث “ میں ملا کر تے ہیں اگر حکمراں طبقے سے کو ئی غلطی سر زد ہو جا ئے اس کے بعد تو پھر مخالفین کی گویا چاندی ہو جایا کر تی ہے اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ حکمرانوں کے ذرا سے ” بہکنے“ سے قومی سطح پر سانحات اور صدمات جنم لیا کر تے ہیں حالیہ صدمہ جانقاں جس سے قوم دوچار ہو ئی دانش مندی کے اطوار اختیار کر کے اس سے حکمراں اپنا دامن بچا سکتے تھے اور عزت بھی ، طاقت کی ” تلوار “ اپنوں کے لیے نہیں غیروں کے لیے نیام سے باہر نکالی جاتی ہے ، اپنوں کے معاملے میں حکمرانوں کا اہم ترین ہھتیار دانش اور محبت ہوا کر تی ہے اور جب معاملہ اپنی رعایا کے دامن سے جڑا ہو پھر تو حکمرانوں کو ہر قدم اٹھا نے سے پہلے ہزار بار سوچ بچار کی رہ گزر پر چلنا پڑ تاہے ، اقتدار کی کرسی سے خاص شغف رکھنے والے حکمراں مگر لگے کئی دہا ئیوں سے ہاتھ میں آئی ریاستی طاقت کو ہر مسئلے کا حل سمجھنے لگے ہیں ، مشرف نے لال مسجد کے معاملے میں اپنے اسی طاقت کا ہنر آزمایا مگر ہاتھ کچھ نہ آیا ، مسلم لیگ ن کے کرم فرماؤں نے طاہر القادری سے جاں خلاصی کے لیے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو جنم دیا اور ہنوز سانحہ ماڈل ٹاؤن مسلم لیگ ن کا پیچھا کر رہا ہے، کیا مو جودہ حکمران اپنے پیش روؤں کے ہاتھوں سرزد ہو نے والے دونوں صد مات کو بھول بیٹھے تھے ، حالیہ احتجاج جس نے بعد میں سانحہ کا روپ دھا را ، مان لیتے ہیں کہ رویوں میں ایک نہیں دو نوں فریقین کی جانب سے غلطیاں سر زد ہو ئی ہوں گی سچ مگر یہ ہے کہ حکمراں سر عت سے معاملے کی حساسیت کو سمجھ کر اگر حل کر نے کی سعی کر تے یقین کیجیے کہ سارے کا سارا معاملہ سدھر سکتا تھا ، حکمراں سطح پر لگے چند سالوں سے بے حسی اور لا پر واہی کی روش بد نے توانا صورت اختیار کر لی ہے عوام سے جڑے کسی بھی معاملے کو حکمراں پہلے پہل سنجیدہ لینے کی زحمت کر تے نہیں حکمراں اس وقت ہڑبڑا کر ہا تھ پا ؤں مارنا شر وع کر دیتے ہیں جب عوام کاسمندر حکمرانوں کے پر تعیش محالات کے سامنے جمع ہو کر سینہ کو بی کر تا ہے ظاہر ہے کہ گھبراہٹ اور جلد بازی میں جس طر ح کے فیصلے پھر قلم کی نوک سے نکلتے ہیں اس سے ہر کو ئی آگا ہ ہے ،تمام تر جولانی کے بعد جناب خان نے جو تقریر دل پذیر کی جس طر ح سے قوم کو ہم نوا بنا نے کی کو شش کی اگر جناب یہی تقریر معاملے کو طاقت کے بل پر سلجھا نے سے پہلے کر لیتے تو کیا اچھا نہ ہوتا ، چلیں طاقت کا استعمال ہی اس سارے معاملے کا حل تھا مگر معاملے کی حساسیت کا تقاضا تھا کہ حکمراں طاقت کا ہتھیار استعمال کر نے سے پہلے مخلوق خدا کے سامنے پو ری طر ح معاملے کھول کے رکھتے سیاسی اوطاقوں کے مکینوں کو ہم نوا بنا تے اور پھر ناگزیر حالات میں گولی کا سہارا لیتے ، ایسا مگر نہ سابق حکمرانوں نے کیااورنہ مو جودہ حکمرانوں نے دانش مندی کے میدان نام روشن کر نے کی کوشش کی ، طاقت اور زمینی حقائق کو پس پشت ڈالنے کا نتیجہ کیا نکلا ، حکمراں طبقے نے بہ زور بازو سارے معاملے کو پار لگا نے اپنی سی کوشش کی جب حالات ہاتھ سے نکلے پھر حکومت جن لوگوں سے ہاتھ ملا نے کے لیے تیار نہ تھی ان سے ” گلے “ ملی ، حضور حکمرانوں کے اطوار یہ نہیں ہوا کرتے حکمرانوں کے فیصلے اجلت میں صادر نہیں ہوا کرتے ، حکمراں طاقت کے نشے میں مست نہیں ہوا کر تے ، حکمراں نازک معاملے میں ہزار بار سوچنے کے بعد فیصلے صادر کیا کرتے ہیں ، کیا حکمراں نہیں جا نتے کہ ان کے صادر فیصلوں کی قیمت رعایا چکا یا کرتی ہے حاکم طبقے کے غیر دانش مندانہ فیصلوں کی سزا مخلوق خدا کی مقدر میں لکھ دی جاتی ہے ، ماضی قریب اور عہد حاضر کے حکمرانوں اور ان کے ہم نواؤں کو مگر رعایا کے بجا ئے محض اپنے اقتدار کی طوالت اور اقتدار سے جڑے ” خرافات“ عزیز تر ہیں ، کم نصیبی ملا حظہ کیجیے ، بائیس کروڑ رعایا کے حکمراں ہر فیصلہ اپنی شہر ت کو دوام بخشنے اور اقتدار کی ” جے “ کو مد نظر رکھ کر کر تے ہیں ہو تا مگر کیا ہے ، قانون قدرت حکمرانوں کے انہی فیصلوں کو ان کے گلوں کا طوق بنا دیتی ہے ، جمہو ریت کے قاعدے کا پہلا سبق یہی ہے کہ جمہو ری حکمراں کو اپنی رعایا سے بنا کر رکھنی چاہیے ، جمہو ریت کے پیروکار حکمرانوں کے رویے مگر خالصتاً آمرانہ ہیں ، تحریک لبیک جیسے اہم ” معاملات “ میں ہر دور کے حزب اختلاف کی سج دھج ہمیشہ الگ سے ہوا کر تی ہے ، عہد گزشتہ کے ” آئیں بائیں شائیں “ سے صرف نظر کر کے حالیہ قصے میں حزب اختلاف کی صفوں میں شامل سیاسی جماعتوں کے کردار پر بھی نظر ڈال لیجیے ، لگے چند ماہ سے دونوں فریقین میں حالات ” گرم سرد “ چل رہے تھے مگر نہ حزب اختلاف اور نہ کسی مذہبی جماعت نے معاملے کو الجھن سے سلجھن کی طر ف لے جانے کی سعی تک نہیں کی ، جب بے گناہوں کے خون سے زمین سرخ ہو ئی اس کے بعد حزب اختلاف کی توپوں نے بھی گولہ باری کی شروعات کر دیں اور مذہبی جماعتوں کو بھی سارے معاملے کی سنگینی کا احساس ہوا ، اگر اس سارے معاملے میں حزب اختلاف بروقت فریقین میں ” طرفین “ کا کردار ادا کر تی شاید وطن عز یز کے سینے پر ایک نئے زخم کا اضافہ نہ ہوتا ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :