”خرابی کی جڑ“

جمعہ 7 مئی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

اس امر میں کو ئی دو آراء نہیں کہ دشنا م کا وطیر ہ قطعاً صائب نہیں گریڈایک کا مسکین ملا زم ہو چاہے گریڈ ستر ہ سے تعلق رکھنے والا پوتر مخلوق دونوں سے طرز کلا م میں اخلاق کا دامن تھا مے رکھنا چا ہیے، محترمہ فر دوش عاشق اعوان کی اے سی صاحبہ کے ساتھ طر ز تکلم پر خوب لے دے ہو ری ہے ، سوال مگر یہ ہے کیا تحصیل یا ضلع کے انتظامی امور کی نگبہا نی کسی وزیر مشیر کے کند ھوں کا بوجھ ہوا کرتی ہے ظاہر ہے تحصیل کے انتظامی امور کی ذمہ دار بلکہ مختار کل اسسٹنٹ کمشنر کے عہدے پر براجمان افسر ہوا کر تا ہے بالکل اسی طرح ضلع کا صاحب بہادر ڈپٹی کمشنر ہو ا کرتا ہے ضلع بھر کی بد انتظامی کا سہر اڈپٹی کمشنر کے سر ہی سجا کر تا ہے اور پو چھ تاچ بھی قانونا ً اسی سے ہوا کر تی ہے لگی تین دہا ئیوں میں انتظامی سطح پر نظام بالکل ” بیٹھ “ گیا ، ماضی کی طرح اب بھی تحصیل اور ضلع میں افسران کی فوج #ظفر موج مو جود ہے، انتظامی عہدوں پر ” مکھن “ کی موجودگی کے باوجود قانون کا منہ کالا اور ظلم کا بول بالا ہر سو کیوں ہے ، اس کا سیدھا سادا جواب یہ ہے کہ اب انتظامی عہدو ں پر قابلیت اوراہلیت کی بنیاد پر افسران کا تقرر نہیں ہو ا کر تا ”واسطے “ اور ” تعلق خاطر“ کی رسم نے پو رے نظام کا بو ریا بستر گول کر دیا ہے ، نو ے کی دہا ئی تک بہر حال قابل اور بھلے ما نس افسران کی مانگ تھی اور عزت و منزلت بھی ، خوشامد کے چلن کے سر بازار ہو نے کے بعد اب تمام تر اہم انتظامی عہدوں پر ” تعلق خاطر “ اور ”واسطے“ کے ذریعے سے تقرر وتبادلے ہو اکرتے ہیں جو افسران حکمران طبقے کا ” بغل بچہ “ ہوا کر تے ہیں انہیں انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جاتا ہے باقی آ پ فطین ہیں کہ جب کو ئی افسر ” تعلق خاطر “ کی بنیاد پر پر کشش عہد ہ حاصل کر تا ہے پھر اسے رعا یا کی پروا ہ نہیں ہوا کر تی ، تحصیل یا ضلع میں کیا ہورہا ہے اس تحصیل یا ضلع کے باسی کس حال میں جی رہے ہیں حکمراں طبقے کے “ عزیز “ گر دانے جانے والے افسران کو اس کی رتی برابر پر واہ نہیں ہوا کرتی ، کیو ں ! اس لیے کہ چا ہے قیامت صغری بر پا ہو جا ئے یہ ہر حال میں اپنی کر سی کو مضبوط تصور کر تے ہیں ،نوا زنے اور نوازے جانے کی ا س رسم کی ابتدا ء ہما رے جمہو ریت پسندوں کی عہد حکمرانی سے ہو ئی مسلم لیگ ن کے ادوار میں یہ رسم تیزی سے پھلی پھو لی جیسے ہی افسران میں یہ سو چ پر وا ن چڑھی کہ اگر اپنے عہدے سے صحیح معنوں میں لطف لینا ہے تو رعایا کہ بجا ئے حکمرانوں کی خوش نو دی ضروری ہے بس اس کے بعد قابل اور اپنے فرائض سے لگ رکھنے والے افسران منظر نامے سے بتدریج غائب ہو تے چلے گئے اور ” تعلق خاطر “ کی مورچوں سے تعلق رکھنے والے افسران انتظامی عہدوں پر براجمان ہوکر موجیں کر رہے ہیں ، ہرووسرا شہر ی واویلا کرتا پا یا جا تا ہے کہ موجوہ نظام فر سودہ ہوچکا مو جو ہ نظام میں لا چار کے لیے کچھ نہیں ، مو جو دہ نظام میں بے کس کی داد رسی کسی طور ممکن نہیں ، عام شہر ی مو جودہ نظام کی ” تین حرفی تعریف “ اس لیے کر تے پا ئے جاتے ہیں کہ عمومی طورپر خلق خدا پر کروفر کے وصف سے لیس افسر شاہی نے اپنے دروازے بند کر رکھے ہیں کسی عام شہری کے لیے ممکن نہیں کہ وہ بلا خوف و خطر اور بلا کسی تگڑی سفارش کے کسی انتظامی افسر سے ” ملن “ کا شرف حاصل کر سکے ، جو احباب اس نکتہ ہا ئے دور دراز سے اتفاق نہیں کر تے ان کی خدمت اقدس میں بس اتنی سی عرض ہے کہ سوئے اتفاق سے ہر اسسٹنٹ کمشنر کے دفتر کے قرب میں اراضی سنٹر زواقعہ ہیں کسی بھی دن وقت نکال کر اپنی تحصیل کے اراضی سنٹر کا دورہ کر لیجیے اپنی آنکھو ں سے دیکھ لیجیے کہ ان اراضی سنٹر ز میں عام شہر یوں کے ساتھ کیا اور کیسا برتاؤ ہوتا ہے ، اس ” حسن سلوک “ سے ہر تحصیل کا ” پر دھا ن “ آگاہ ہوتا ہے مگر جانتے بوجھتے اراضی سنٹر کا قبلہ راست کیو ں نہیں کیا جاتا ، اس ” نہیں “ کیا جاتا کا جواب ذر خودتلا ش کر نے کی زحمت کر لیجیے گا ، چلیں اس سے بھی کم زحمت کر لیجیے کسی دن اپنی تحصیل کے اسسٹنٹ کمشنر یا اپنے ضلع کے ڈپٹی کمشنر سے ملنے چلے جا ئیے آپ کے چودہ طبق اگر روشن نہیں تو روشن ہو جا ئیں گے ، حکومتیں بھا ری بھرکم مراعات اور تنخواہیں دے کر تحصیل اور ضلع سطح پر افسران کا تقرر کیوں کرتی ہیں ، ہر حکومت انتظامی عہدوں پر براجمان افسران پر کروڑوں اربوں کیوں خرچ کر تی ہے اس لیے کہ یہ افسران خلق خدا کی خدمت کے لیے اپنی توانیاں صرف لکر یں ان کے مسائل حل کر یں ان کے لیے آسانیاں پیدا کر یں ، ان کے ساتھ ہو نے والے مظالم کا چٹکی بجا تے تدارک کریں کیا ایسا ہو رہا ہے اگر نہیں ہو رہا تو پھر انتظامی عہدوں پر براجمان افسران کیا کر رہے ہیں ، پتے کی بات عرض کیے دیتے ہیں کو ئی بھی حکومت اچھی یا بری نہیں ہو تی دراصل کسی بھی حکومت کی خوش نامی اور بد نامی کا باعث افسر شاہی بنا کر تی ہے باقی مزاج یار میں جو آئے اسے ہی سچ سمجھ لیتے ہیں ،ایک بات مگر پلو سے باندھ لیجیے جب تلک انتظامی عہدوں پر اہلیت کے بل بوتے پر افسرا ن کا تقرر کا چلن عام نہیں ہوگا اس وقت تک عام شہری کی زندگی اجیر ن رہے گی چا ہے آپ ما نیں یا نہ مانیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :