”پھر فاتحہ پڑھ لیجیے“

بدھ 9 جون 2021

Ahmed Khan

احمد خان

سرکار کے اداروں کو دیمک کی طرح چاٹنا کو ئی ہم سے سیکھے ، اپنے قومی اداروں کا تیا پانچا کرنے میں ہمارا کو ئی ثانی نہیں ، جی ٹی ایس کا قصہ کچھ اتنا زیادہ پرانا نہیں کہ کسی کو یاد نہ ہو شما لی علا قہ جات کے لیے سرکار کا یہ ادارہ زمینی آمد و رفت کا بہترین ذریعہ تھا اس ادارے کو قصہ پا رینہ بنا نے والے کو ئی اور نہیں وہ تھے جن کا رزق براہ راست اس ادارے سے جڑا تھا مل جل کر جی ٹی ایس پر ہاتھ صاف کر نے والوں سے آج پو چھ لیجیے ، آج نہ جی ٹی ایس ہے اور نہ ہی اس سے جڑے ملازمین ، ریلوے کا ادارہ کسی زمانے میں سفر کا سستا بہترین اور پر لطف ذریعہ تھا ، پی آئی اے کی طر ح پاکستان ریلو ے کی ایک ساکھ تھی ایک نام تھا ایک مقام تھا مگر اس ادارے کو بھی مادیت پر ستوں کی نظر لگ گئی ، اوپر سے نیچے تک عوام کے اس ادارے کو نو چنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس نے ریلوے کو تباہی کے دہا نے پر لا کھڑاکر دیا ، جو بھی حکومت آئی اس نے اس ادارے میں اپنے چہتوں کو جھتوں کی شکل میں بھرتی کیا چند سال قبل تو ایک وزیر اور ایک خوش نام ریلوے افسر کے درمیاں سفارشی بھر تیوں کے قصے نے خوب شہر ہ حاصل کیا تھا ، ریلوے کو تبا ہ کر نے میں سفارشی بھرتیوں اور کھلے بندوں لو ٹ مار نے کلیدی کر دار اد کیا ، جسے بھی ریلوے کا قلم داں ملا اس نے ریلوے کی ساکھ بحال کر نے کے خوب دعوے کیے مگر کو ئی وزیر بھی ریلوے میں جنم لینے والی ” بیماریوں “ کا سد باب کر نے میں کا مران نہ ہو سکا ، مسلم لیگ ن کے دور میں خواجہ صاحب نے اس ادارے کو چلا نے کے دعوے بھی کیے اور کسی حد تک ہا تھ پا ؤں بھی ما رے مگر مو صوف ریلو ے کا قبلہ درست نہ کر سکے اور گھر کی راہ ہو لیے ، تحریک انصاف کے عہد میں جناب شیخ نے اس ادارے کو ناک کی سیدھ میں کر نے کے ” جناتی قسم “ کے دعوے کیے مگر معاملہ ” گل محمد نہ جنبد “ والا رہا ، اب جناب سواتی ریلوے کے وزیر باتدبیر ہیں خیر سے مگر ریلوے کا معاملہ وہی کا وہی ہے ، ذرائع ابلاغ نے کل کلا ں ہو نے والے صد مہ جانقاں پر آسماں سر پر اٹھا رکھا ہے ، ذرائع ابلاغ چیخ چیخ کر ارباب اقتدار سے سوال کر رہے ہیں کہ پے در پے حادثوں کے ذمہ داروں کا تعین کیجیے ، حادثات کے ذمہ دار عناصر کو آج تک سزائیں کیوں نہیں ہو ئیں ، ریلوے کے نظام میں پا ئی جانے والی خرابیاں دور کر نے کی سبیل کیوں نہیں کی جاتی ، ذرائع ابلا غ سے جڑے جو احباب یہ اور اس سے ملتے جلتے سوال اٹھا رہے ہیں وہ اعلی درجے کے سادہ دل ہیں ، جس ادارے کے بل پر ارباب اقتدار کی سیاست کا سکہ چلتا ہو جس ادارے کے بل پر ارباب اختیار کا چولہا جلتا ہو ، جس ادارے میں ہر امر پر ” حاصل وصول “ کی رسم سر بازار ہو بھلا اس ادارے میں بہتری لا نے کے لیے کس نے سر دکھا نا ہے ، گوروں کو برا بھلا کہنا ہم اپنا فخر سمجھتے ہیں مگر گو روں کے دئیے گئے اس تحفے کا حلیہ بگا ڑنے کے سوا ہم نے کیا کیا ہے ، کیا ارباب اقتدار نہیں جا نتے کہ گوروں کے زمانے کی ریل پٹڑ ی کب کی اپنی طبعی عمر پو ری کر چکی ، کیا ریلوے کے اعلی دماغ نہیں جا نتے کہ ریل پٹڑی جد ید دور کے تقاضوں کو پورا کر نے سے قاصر ہے ، کیا ریلوے کے بھاری بھر کم تنخواہیں اور مراعات لینے والے افسران ریلوے میں پائی جانے والی خرابیوں سے بے خبر ہیں ، ارباب اقتدار سے ارباب اختیار تک ڈی ایس سے گینگ مین اور سگنل مین تک ریلوے میں پا ئے جانے والی ہر ” خرابی بسیار “ سے بخوبی آگاہ ہیں ، دراصل سرکار کے سایہ عاطفت میں چلنے والے عوام کے اس اہم ادارے کو سب مل کر نو چ رہے ہیں مگر اس کی بہتری کے لیے کسی کے دل میں رتی برابر تڑپ نہیں ، جس طر ح آج ریلوے خستہ حال ہے عین اسی طرح پاکستان اسٹیل ملز کو بچا نے کے لیے صدا ئیں بلند ہو تی رہیں مگر تمام تر آہ و فغاں کے باوجود آج قوم کا قیمتی ترین ادارہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے ، پی آئی اے کا حال بھی کم و پیش ایسا ہی ہے اگر چہ پی آئی اے کے سربراہ اپنے ادارے کو پھر سے پا ؤں پر کھڑا کر نے کی تگ و دو کر رہے ہیں حالات مگر اتنے اچھے نہیں کہ اطمینان کی سانس لی جاسکے، عر ض مگر یہ بھی سنتے جا ئیے جس طرح آج جی ٹی ایس سے فارغ ہو نے والے در بدر ہیں اگر کل کلاں ریلوے بھی قصہ پا رینہ بن گیا پھر اپنی معاشی خوش حالی پر ابھی سے فاتحہ پڑ ھ لیجیے ، آج آپ اپنے ادارے سے کھیل رہے ہیں کل کو ئی آپ کی خوش نصیبی سے کھیلے گا یہ دنیا مکافات عمل ہے جو فصل بو ئیں گے کل وہی فصل کا ٹیں گے ، یقیں نہیں آتاچلیے پھر جو ادارے زمیں بوس ہو چکے ان کے بچے کچھے ملا زمین سے خود معلوم کر نے کی زحمت کر لیجیے کہ وہ آج کس حال میں جی رہے ہیں ، زندہ قومو ں کی پہچان ان کے اداروں سے ہوتی ہے خدارا اپنے قومی اداروں کے بچا ؤ کے لیے اپنا کردار ادا کیجیے اسی میں ملک کا بھی بھلا ہے اور آنے والی نسلوں کا بھی بھلا ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :