تعلیم کا شعبہ ہمیشہ سے لاوارث چلا آرہا ہے جب ٹاٹوں پر نظام تعلیم کا تکیہ تھا مالی لحاظ اس ” بنجر “ محکمہ کا قلم داں لینے سے ہر ایک گریز پا ررہتا عام طور پر جیسے وزارت کا جھنڈا دے کر محض راضی کر نا مقصود ہوتا اسے یہ وزارت دے کر خوش کر دیا جاتا ، تعلیم کا قلم داں زیادہ ترایسے احباب کے پاس رہا جنہیں تعلیم کی ” ا، ب “ سے شد بد تک نہ تھی ، یہی وجہ ہے کہ عملا ً تعلیم کے شعبے کو سیکرٹری چلاتا جس مزاج کا سیکرٹری ہوتا وہی ” مزاج “ محکمہ تعلیم میں راسخ ہوتا ، پنجاب میں کپتان سے معدودے جو نیک امر سر زد ہو ئے ان میں سے ایک مراد راس کو وزارت تعلیم کا قلم داں دینا بھی ہے ، یو ں سمجھیے کہ پہلی بار صحیح معنوں میں پڑ ھے لکھے محکمے کو پڑ ھا لکھا وزیر ملا ، وزیر بھی وہ جو نہ صرف تعلیم کے شعبے کی باریکیوں اور اونچ نیچ کما حقہ سمجھتا ہے بلکہ اپنے قلم داں سے انصاف کر نے کے لیے سرگرداں بھی ہے، پہلی بار دیکھنے میں آرہا ہے کہ محکمہ تعلیم کو افسر شاہی نہیں بلکہ حقیقتاً کسی حکومت کا وزیر چلا رہا ہے ، مراد راس کی ذاتی کوششوں اور کاوشوں کے کئی حوالوں سے اچھے نتائج بر آمد ہو رہے ہیں ، اساتذہ کی چھٹیوں کے معاملے کو انتہا ئی حد تک آساں بنا دیا گیا ہے اسی طرح اساتذہ کے اے سی آر کا جاں گسل مسئلہ بھی عن قریب حل ہونے والا ہے ، اساتذہ کو سابق ادوار میں اپنے تبادلوں کے لیے ” دریا “ پار کر نا پڑ تا تھا اب آسانی اور شفافیت کے ساتھ اساتذہ کے تبادلوں کا سادہ طریق کار وضع کر دیا گیا ہے جس کا گماں بھی نہیں کیا جاسکتا تھا ، کسی حد تک اساتذہ کی غیر تدریسی ” بیگار “ سے بھی جان چھڑا دی گئی ہے ، اب بھی مگر کچھ امور ایسے ہیں جو ایک فطین وزیر تعلیم کے توجہ کے طالب ہیں ، شہباز شریف دور میں پرا ئمری درس گاہوں میں چار اساتذہ کے تقرر کی پالیسی کا چلن اپنا یا گیا اس پر سرخ لکیر کھینچ دی گئی ہے پرائمری درس گاہیں در اصل علم کے حصول کا پہلا اور اہم تر زینہ گر دانا جا تا ہے لہذا جن پرائمری درس گاہوں میں طلبہ و طالبات کی تعداد ستر سے زائد ہے ان میں کم از کم چار اساتذہ کے تقرر کی پالیسی کا نفاذ یقینی بنا یا جا ئے ، ثانوی سطح پر بہت بڑی تعدا د میں درس گاہیں عر صہ دراز سے مستقل سربر اہوں کے بغیر چل رہی ہیں مستقل سر براہ ادارہ نہ ہو نے کی وجہ سے ثانوی درجے کے درس گاہوں کی تعلیمی سرگرمیاں شدید متاثر ہو رہی ہیں پنجاب بھر کے تما م ثانوی درس گاہوں میں مستقل سربراہوں کی تقر ر کی پالیسی پر آناً فاناً عمل درآمد کی راہ اپنا ئی جا ئے ، تبادلوں میں ” فاصلے “ کے نمبر سب سے زیادہ رکھے گئے ہیں جس کی وجہ سے مقامی اساتذہ باوجود کوشش کے تبادلے کے بنیادی حق سے محروم رہ جا تے ہیں ، تبادلوں کی پالیسی میں فاصلے کے نمبر کم کیے جا ئیں نیز تبادلوں کی مروجہ پالیسی پر نظر ثانی کی جا ئے ، اے ای او اور ایس ایس ای اساتذہ کی مستقلی کا معاملہ ہنوز کسی کنا رے نہیں لگا جتنا جلد ہو سکے اس اہم تر معاملے کو کسی کنا رے لگا یا جائے ، ، سابق آمر نے اپنے دور حکمرانی میں شعبہ تعلیم کو بھی نہیں بخشا ، مخلوط نظام اسی آمر کی پیداوار ہے مخلوط نظام تعلیم کی بدعت کو اس شعبے میں رواج دینے کے بعد لگی دو دہا ئیوں میں تعلیم کا شعبہ اخلاقی بیماریوں کاگڑ ھ بن چکا ، چھتیس اضلاع میں سے کسی بھی ضلع کے سربراہ سے مخلوط نظام کی تباہ کا ریوں پر جامع معلومات لے لیجیے ، حالات کا بگاڑ عیاں ہو جا ئے گا ، گئے زمانے میں متوسط طبقے کے والدین اپنی بیٹوں کو شعبہ تعلیم سے وابستہ کر انے پر فخر محسوس کر تے تھے مگر اختلاط نے اس شعبہ میں عزت سے خواتین اساتذ ہ کے لیے فرائض کی ادائیگی کومشکل تر بنا دیا ہے ، اسلامی اور مشر قی روایات کے امیں ہو نے کے ناطے مردانہ درس گاہوں میں مرد اساتذہ اور خواتین درس گاہوں میں خواتین اساتذہ کے تقرر کی سابق پالیسی کو پھرسے رواں کیاجا ئے ، تعلیمی شعبہ کی خستہ حالی میں تعلیمی افسر شاہی کے کردار سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا ، محکمہ تعلیم میں بہت بڑی تعداد ایسے افسران کی ہے جو عرصہ دراز سے انتظامی عہدوں پر براجمان ہیں ان افسرا ن کی خواہش بس عہدوں سے لطف لینا مقصود ہے اگر لگے بیس سالوں کا ریکارڈ کنگال لیا جا ئے ، بہت بڑی تعداد ایسے افسران کی ملے گی جو ہر دور میں کسی وزیر کبیر مشیر کے ” لاڈلے “ بن کر انتظامی عہد ے حاصل کر تے رہے ہیں زیادہ تر افسران کو چونکہ اپنے عہدوں کی ” شیرینی“ عزیز ہوتی ہے سو تعلیم کے شعبے میں جاندار اقدامات اور پالیسیوں کو چالو کر نے کے بجا ئے وہ ہمہ وقت اپنے عہدوں کو بچا نے کی فکر میں غلطاں رہتے ہیں ، ان کی ناک کے عین نیچے کیا ہو رہا ہے ، اساتذہ کس طر ح سے اپنے فرائض منصبی ادا کر رہے ہیں ، معصوم طلبہ کے کیا مسائل ہیں انہیں تعلیم کے ان امور سے کو ئی لگ نہیں ہوتی ، اگر تعلیمی افسران کے تقرر میں اہلیت شفافیت اورکردار کو سامنے رکھا جا ئے اس سے نہ صرف شعبہ تعلیم میں بہتری کا دیا روشن ہو سکتا ہے بلکہ نیک نام وزیر کی نیک نامی میں بھی مزید اضافہ ہوگا ، شعبہ تعلیم میں اساتذہ کو ایک ستون کا درجہ حاصل ہے یہ شعبہ اساتذہ ااکرام کے دم سے ہی آباد ہے لگے چند سالوں میں تعلیم کے شعبہ کی اہمیت کو محسوس کر تے ہو ئے اساتذہ کے تقرر کے لیے کڑی قابلیت کا پیما نہ مقرر کر دیا گیا ہے مگر اتنا کا فی نہیں اساتذہ کے تقرر کے وقت ان کی قابلیت کے ساتھ ساتھ ان کے ذاتی میلا ن اور رجحان کا پر کھنا بھی ازحد ضروری ہے استاد ہی آنے والی نسلوں کو بنا نے میں اہم کردار ادا کرتا ہے سو اساتذہ کے تقرر میں ایک معلم کی مر وجہ خوبیوں کو بھی سامنے رکھا جا ئے ، امید واثق ہے کہ تعلیم کا درد رکھنے والا وزیر تعلیم کے شعبے کو چار چاند لگا نے کے لیے اپنی توانا ئی اسی طرح صرف کر کے کامرانیاں سمیٹتے رہیں گے ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔