”سیاست کا جوان رعنا“

ہفتہ 10 جولائی 2021

Ahmed Khan

احمد خان

ملکی سیاست سے وضع دار سیاست داں گاہے گاہے رخت سفر باندھ رہے ہیں اوراس میدان کارزار میں ” چاک گریباں “ والوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے ، وضع داری کے ہنر سے لیس نسلوں سے جڑ ے ملک شاہان حاکمین بھی کو چہ سیاست کو داغ مفارقت دے گئے ، خوش لباس ، خوش اطوار خوش گفتار اور پر وقار شخصیت کے مالک ملک شاہان کے بارے میں گماں تک نہ تھا کہ وہ اتنی جلدی کو چہ سیاست کی دلبری سے تائب ہو جا ئیں گے ، ملک شاہان ان سیاست دانوں میں سے تھے جنہیں یا ر لوگ پی پی پی کا ” اصل خمیر “ گردانتے ہیں ، مر حوم ظاہراًجتنے خوب صورت تھے ان کی سیاسی اطوار اس سے کہیں زیادہ جاذب نظر تھیں ، سیاسی خانوادے سے تعلق خاطر ہو نے کے باوجود مزاج میں تکبر کا شائبہ تک نہ تھا ، چھو ٹے بڑے سے ادب کے قرینے میں بات کر تے البتہ کسی صورت نہ دبنے کی خوبی اپنے جماعت کے سربراہ سے ورثے میں ملی تھی ، پی پی پی کے عہد میں ایم پی اے منتخب ہو ئے اپنے حلقے میں مقدور بھر تر قیاتی منصوبے لا ئے مگر پانچ سال کے عرصہ اقتدار میں ان پر ایک پا ئی مالی لو ٹ کھسوٹ کا الزام نہ لگا ، سیاست میں سرگرم ہو نے کے باوجود ہمیشہ اپنے دامن کو مالی بد عنوانی اور ”’ تو تو میں میں “ سے بچائے رکھا ، کلام میں گو یا ” آپ “ ان کا تکیہ کلا م تھا ایک بار ان کے مصاحب خاص کسی صاحب سے دوچار الفاظ زیادہ بول گئے بلکہ بغیر تولے بول گئے سر شام وہ صاحب اپنے دوست کو لے کر ملک شاہان کے پاس گئے بے تکلف لہجے میں گو یا ہو ئے کیسے آنا ہوا ، دوست نے عرض کیا کہ آپ کے مصاحب خاص میرے دوست سے دو چار لفظ زیادہ بول گئے اسی وقت اپنے مصاحب خاص کو پاس بلا یا اور کہا ”آپ “ کو کس نے کہا کہ ایم پی اے کی قربت کا دوسروں پر دھو نس جما ؤ اپنے دوست اور ا ن کے ساتھ آنے والے صاحب سے باقاعدہ معذرت کر کے انہیں احتشام سے رخصت کیا ، پی پی پی کی حکومت میں ظاہر ہے حکومتی ایم پی اے تھے خود بھی سیاسی اثر و رسوخ کے وصف سے لیس تھے دوسری جانب ملک حاکمین کے فر زند ہو نے کا اعزاز بھی حاصل تھا گر چاہتے تو پی پی پی حکومت میں دونوں ہاتھوں سے ” مال غنیمت “ بٹور سکتے تھے مگر اصول پسند ملک شاہان نے ایک پائی سے بھی اپنے دامن کو آلو دہ کر نے کی سعی نہ کی ، انتخابات کے دنوں میں سیاست داں ایک دوسرے کی ” خبر “ لینے کے لیے ہر دریا پار کر نے میں کو ئی حجت محسوس نہیں کرتے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ گویا عام انتخابات کا حسن سمجھا جا تا ہے ، ملک شاہان اپنی سیاسی مہم میں بھی اپنی وضع داری اور خوش گفتاری کے اصولوں پر کار بند رہتے اپنی سیاسی مہم اپنی سیاسی بساط کے مطابق خوب چلا تے حلقے کے عوام کو ہم نوا بنا نے کی پوری جستجو کر تے مگر اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں ” کمال “ کر نے سے ہمیشہ پہلو تہی کر تے ، ملک شاہان کا وضع داری کا رشتہ صرف اپنے احباب تک ہی محدود نہ تھا بلکہ اپنے سیاسی حریفوں سے بھی کشادہ دلی سے میل جول رکھتے ، نو حہ کس بات کا ہے ، وطن عزیز کی سیاست میں ہزاروں سیاست داں میدان سیاست میں سر گرم نظر آتے ہیں مگر وطن عز یز کی سیاست ایسے سیاست دانوں سے تیزی سے تہی دامن ہو تی جارہی ہے جن میں وضع داری ، ایما ن داری اور خوش گفتاری کی خوبیاں مو جود ہیں ،ملک شاہا ن کیوں بہت سے سیاست دانوں سے مختلف تھے اس لیے کہ ان میں ماضی کے سیاست دانوں والی خوبیاں مو جود تھیں ، سیاسی اکڑ فوں ، انتقامی سیاست کی خو بو اپنے سیاسی مخالفین پر دھونس جمانا اپنے سیاسی مخالفین کا جینا حرام کر دینا مو جودہ سیاست کی لازمی جز بن چکیں لیکن ملک شاہان ان سیاسی کر توتوں سے کوسوں دور تھے ، ملک شا ہان لمحہ موجود کے گنے چنے ان سیاست دانوں میں سے تھے جو آج بھی سیاست کو سیاست سمجھ کر چلتے رہے ، ایک طویل عرصہ ملک شاہان نے سیاست میں گزارا مگر کو ئی ایک ایسا فرد نہیں جسے ملک شاہان نے انتقام کا نشانہ بنا یا ہو ، چلیں ملک شاہان تو کو چہ سیاست کو یتیم کر کے چلتے بنے اگر آپ کے ارد گرد کو ئی ایسا سیاست داں موجود ہے وضع داری جس کا خاصہ ہو ایمان داری اس کا اثاثہ ہو سیاست کو وہ عبادت سمجھتا ہو انتقام کے جذبے سے کوسوں دور ہو تو اپنے اس سیاست داں کی زندگی میں قدر کر نا شروع کر دیجیے ورنہ ” چاک گریباں “ والوں کی تو کو ئی کمی نہیں ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :