” سب مایا ہے “

جمعرات 23 ستمبر 2021

Ahmed Khan

احمد خان

اقتدار کے گنے چنے ماہ وسال بلکہ دن گزرتے دیر نہیں لگتی ، حکمراں جماعت کو اقتدار کے پہلے چھ ماہ خود کو اقتدار کی رہداریوں میں فٹ کر نے میں لگ جا تے ہیں اور اگلے چھ ماہ گر کچھ کر گزرنے کا ارادہ ہو تو اس کی نذر ہو جا تے ہیں ادھر اقتدار کا سال ماضی بنتا ہے ادھر سے سیاسی مخالفین پینترا بدلنا شروع کر دیتے ہیں ، کہیں کہیں سے عوامی حلقوں کی کسمساہٹ بھی انگڑائی لینی شروع کر دیتی ہے ، بس حکمرانوں کے لیے اقتدار کے ایک سال کے بعد محاذ پر محاذ کھلنے شروع ہو جا تے ہیں طرز حکمرانی کے رموز سے آگاہ حکمراں اپنی پالیسیوں کا دفاع بھی کر تے ہیں سیاسی مخالفین کے الزامات سے اپنا پہلو بھی بچا نے کی سعی کر تے ہیں اور عوام کی آرزوؤں کو حقیقت کا روپ دینے کا ساماں بھی کر تے ہیں باالفاظ دیگر سیاست کے ایوانوں میں ” گھڑ مچ “ کے دوران چار سال کا زمانہ یوں گزر جاتا ہے جیسے ابھی کل ہی کی بات ہو ، اقتدار کا آخری سال حکمرانوں کی کڑ ی آزمائش کا سال ہوا کر تا ہے ، عوامی چوباروں میں حکومت کی ناقص اقدامات پر زورں کے مباحثے ہوا کرتے ہیں سیاسی حریف الگ سے حکمرانوں کو ململ کے کپڑ ے میں نتھارنے کی کوششوں میں مصروف عمل ہو تے ہیں عوامی جذبات کو ابھارنے کے لیے حکمرانوں کے سیاسی حریف وہ تڑ کا لگا تے ہیں کہ بس توبہ ہی بھلی ، یوں پانچ سال گویا پل بھر میں قصہ ماضی بن جاتے ہیں اور اسی ہا ؤ ہو میں حکمراں آسماں سے زمین پر آجاتے ہیں ، قلیل عرصہ اقتدار میں مگر حکمرانوں کا طرز عمل کیا ہوا کرتا ہے ، جیسے ہی ہمارے سیاسی رہبر اقتدار کے ایوانوں کے مکین بنتے ہیں اس کے بعد ان کی رویوں اور طرز عمل میں عجب سا ” نشہ “ درآتا ہے ، ہوتا کیا ہے ، حکمران اور حکمرانوں کے ہم نوالہ و ہم پیالہ خود کو ہر قانون سے ماورا سمجھنے لگتے ہیں ، ان کے گردن میں ایسے سر یا فٹ ہو جا تا ہے جس کی نظیر ڈھونڈے سے نہیں ملتی ، اقتدار کے نشے میں مست اقتدار پر براجمان مہر بانوں کو ہوش اس وقت آتا ہے جب چڑ یاں کھیت جگ چکی ہوتی ہیں ، کون کہہ سکتا تھا کہ ایوب اقتدار سے رخصت ہو ں گے مگر آج ایوب کہاں ہیں ، بھٹومر حوم کی جلوہ گری کا تذکرہ آج تلک بڑے بوڑھوں کے لبوں پر رقص کرتا ہے آج مگر بھٹو مر حوم کہاں ہیں اور اقتدار کا ہما کہاں ہے عین اسی طرح ضیاء الحق اور اقتدار کو لازم و ملزوم قرار دینے والے آج انگشت بدنداں ہیں ، نو ے کی دہائی میں ” ملی جلی “ جمہو ریت کے عہد میں کسی کے وہم و گماں میں نہ تھا کہ محترمہ بے نظیر اور نواشریف کے علا وہ بھی کوئی کو چہ اقتدار میں قدم رکھ سکتا ہے لیکن چشم فلک نے دیکھا کہ اقتدار کے لیے ناگزیر سمجھنے والے اقتدار کے دوڑ سے باہر ہو ئے اور مشرف کو چہ اقتدار کے دلبر بنے ، مشرف کا تفاخرانہ انداز بہت سوں کو یاد ہوگا چلیں کم از کم ان کا مکا تو بہت سے ذہنوں میں نقش ہوگا ، آج مگر وہی مشرف ماضی کی داستاں بن چکے ، اس طولا نی تمہید کا مد عا کیا ہے صر ف اتنا کہ اقتدارکو دوام حاصل نہیں آج کا شاہ کل کا گدا اور کل کے گدا پر نہ جانے کس وقت قدرت مہر باں ہو جا ئے اور وہ وقت کا شاہ بن بیٹھے ، وطن عزیز کا ہر حکمراں لیکن اقتدار میں اس اصل حقیقت کو بھول جاتا ہے ، میاں صاحبان کو طویل عرصہ تک حکمرانی کا شرف حاصل رہا میاں صاحبان کئی بار اقتدار میں آئے اور کئی بار اقتدار سے جبراً رخصت کیے گئے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ پی پی پی کی بھی یہی سرگزشت ہے ، وطن عزیز کے حکمرانوں کا ”آنکھ مچولی “ کا کھیل کیوں مقدر بنتا رہا ، جب تک جمہو ر کے نما نئدے فٹ پاتھ پر ہو تے ہیں اس وقت تک عوام کی حاکمیت کی تسبیح پڑ ھا کر تے ہیں جیسے ہی جمہور کے یہ غم خوار اقتدار کی غلام گردشوں میں قدم رکھتے ہیں خود کو ” راجہ اندر “ سمجھنے لگتے ہیں ، دل چسپ امر یہ ہے کہاانیس بیس کے فرق سے تمام حکمراں یہی غلطی کرتے رہے اور اسی غلطی کی وجہ سے اقتدار سے بے دخل ہو تے رہے ، حال کے آئنیے میں حکمراں طبقے کو چانچ لیجیے ، آئین قانون اور عوامی حاکمیت کے سب سے بڑے دعوے دار جناب خان اور ان کے کرم فرماؤں کے اقتدار میں آنے کے بعد کے انداز و اطوار ملاحظہ کر لیجیے ، آئین کی پاسداری کے قصے کتنے عام ہیں ، قانون کی حاکمیت کا غلغلہ کتنا ہے ، عوام کے غم میں گھلنے والے جناب خان اور ان کے قددان عوام کی آسانی کے لیے کتنی تگ و دو کر رہے ہیں، سب سے بہتر منصف آپ ہیں سوا نصاف کا ترازو آپ کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ، خود فیصلہ کیجیے کہ کیا درست اور کیا غلط ہے ۔


ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :