سیانے کہتے ہیں حکومتیں جو کر نے کی ٹھا ن لیں وہ کر کے دم لیتی ہیں لگے دنوں سیانوں کی بات کو حکومت وقت نے من و عن ایک بار پھر صد فی صد درست ثابت کر دیا ، ای وی ایم سمیت کئی ” خواہشات“ کو حکومت وقت قانون کا جامہ پہنانے کی آرزومند تھی جس شدت سے حکومت اپنے من پسند خواہشات کو قانون کا لبادہ اوڑ ھنے کی تمنا ئی تھی حزب اختلاف اسی حدت سے پارلیمان میں ان قوانین کی راہ میں پہاڑ بننے کی دعوے دار تھی ہو ا مگر کیا ، حزب اختلاف کے ” لاکھ برا “ چاہنے کے باوجود حکومت وقت کے روشن دماغوں نے طاقت کی چال چل کر دو درجن سے زائد بلوں کو چشم زدن میں قانون کا پہناوا پہنا دیا ، حزب اختلاف لا تعداد دعوؤں اور کو ششوں کے باوجود کچھ نہ کر سکی ، یہ کارنامہ صرف موجودہ حکومت نے ہی اکیلے سر انجام نہیں دیا ، ماضی کی تمام حکومتوں نے بھی عین انہی اطوار سے من چاہے قوانین بنا ئے اور نافذ کیے ، کیا حکومت وقت کو اپنے مفادات کوتحفظ دینے کے قوانین نہیں بنا نے چا ہئیں ، بحث اس نکتے پر نہیں ، مباحثہ دراصل اس نکتے پر ہے کہ عوام سے لگ کھا نے والے معاملات میں ہماری حکومتیں اور حکومتی قدرداں اس طرح کی دل کی دکھن کیوں نہیں دکھلا تے ، عوام سے لگ کھا نے والے معاملات کا پارلیمان میں کیا حشر نشر ہوتا ہے ، اول تو عوام کو محض سبز باغ دکھلا کر ماموں بنا یا جاتا ہے ، کسی بھی ایم پی اے اور ایم این اے کے پاس جب عوام سے تعلق رکھنے والے خوگر حاضری دیتے ہیں انہیں عام طور پر جواب ملتا ہے کہ ایوان میں اس عوامی مسئلے کے بارے میں آواز اٹھا ؤں گا اور اسی ” تکرار“ اوروعدے پرپانچ سال دریابردہوجایاکرتے ہیں،جب طو عاً کر ھا ً عوام کے مفادات کے حامل کسی ” وجہ نزاع “ پر قانون سازی کا مرحلہ شروع ہوتا ہے وہ بل کچھوے کی رفتار سے قانون بننے کا سفر طے کرتا ہے ، عام طور پر عوامی معاملات میں ” کمیٹی کمیٹی “ کا مشہور کھیل رچا یا جاتا ہے اگر کوئی سرپھرا عوامی نما ئندہ عوامی مفاد یا عوامی مسئلے پر ایوان میں بل لاتا ہے تو اسے ” متعلقہ کمیٹی “ کے سپرد کر نے کے احکامات صادر کر دئیے جاتے ہیں ، پھر کیا ہوتا ہے ، اس کے بعد کمیٹی کمیٹی کا کھیل مہینوں بلکہ بسا اوقات سالوں چلتا رہتا ہے یعنی عوام کے معاملات میں حکومت وقت کے پر دھان اور حزب اختلاف کے سر خیل عموماً ایک ہی کشتی کے سوار بن جاتے ہیں ، ذرا ماضی قریب میں جھانک کر وطن عز یز کی پارلیمانی ریکا رڈ کی جانچ کر لیجیے ، عوام کے مفادات کے باب میں عوامی نما ئندوں نے قانون سازی کے لیے کتنی مغز کھپا ئی کی اور کتنے بل اس ” شد ومد “ سے پاس کیے ، ظاہر سی بات ہے کہ اس معاملے میں ہماری حکومتیں تہی دامن ہیں ، وہ جمہو ری ایوان جو خالصتاً عوام کی فلاح کے لیے قائم ہیں جہاں عوامی نما ئندوں کا کام صرف اور صرف عوام کی خدمت اور عوام کی آسانی کے لیے صدا بلند کر نا ہے وہ ایوان دراصل صرف اور صرف مخصوص طبقے کے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے رہ گئے ، جس طر ح سے من چاہے قوانین کے لیے حکومتیں ہر حیلہ ہر حربہ ہر وطیرہ استعمال کر تی ہیں اگر عوام کے مصائب اور معاملات کے حل کے لیے بھی عوام کی منتخب کر دہ حکومتیں اور حکومتی اراکین اس خلوص نیت کا مظاہر ہ کر یں ، عوامی نما ئندوں کے اس عوام دوست طرز عمل سے جمہوریت پر عوام کا ایمان پختہ تر ہو تا چلا جا ئے گا ، ہماری سیاسی جماعتیں اگر واقعی جمہو ریت کی سچی عشاق ہیں پھر انہیں جمہوریت پر عوام کا اعتماد بحال کر نا ہوگا ، لگے سالوں میں جمہو ریت کے نام پر سیاسی جماعتوں نے جس طر ح سے عوام کے ارمانوں کا خوں کیا ہے سیاسی جماعتوں کی اس ” بے نیازی “ کی وجہ سے عوام اور سیاسی جماعتوں میں سیاسی رومانس میں بڑی تیزی سے کمی واقع ہو ئی ہے ، جمہور کی گلہ گزاری کا بہترین علاج کیا ہے ، یہ کہ حکومت وقت سابقہ حکومتوں کا کفارا ادا کرتے ہو ئے عوام اور عوامی مفادات کو چند فیصد کے مفادات پر مقدم رکھنے کی خو اپنا ئے ، حکومت وقت نہ صرف یہ کہ عام آدمی کے مسائل جا ننے کی جستجو کر ے بلکہ عام آدمی کو درپیش مسائل کے حل کے لیے مو ثر اور ہر طر ح کے سقم سے پاک قوانین بنا نے کی روش بھی اختیار کر ے ، جمہور کا گلہ اس صورت ہی دور ہو سکتا ہے اور خلق خدا کا اعتماد جمہوریت پر اسی طور بحال کیا جاسکتا ہے، اگر جمہوری ایوانوں میں تشریف فرما عوامی نما ئندوں کی چال ڈھال اس طر ح کی رہی امید واثق رکھیے کہ جمہوریت کے نعرے لگا نے والوں اور جمہورمیں دوریاں تیزی سے سوا ہو تی چلی جا ئیں گی اب وہ دور لد چکا جب محض خوش کن نعروں اور دل ربا وعدوں کے بل پر جمہور کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا جاتا تھا ، بہر طورگھسا پٹا سوال گھوم پھر کر وہی ہے کہ سیاسی جماعتوں کے دل میں جمہور کا درد کب جاگے گا ۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔