حقائق اور ترجیحات

بدھ 25 مارچ 2020

Ahtesham Ul Haq Shami

احتشام الحق شامی

پہلے سے تباہ حال معیشت میں گھری اور غربت و افلاس کی ماری قوم پر کرونا وائرس کی وباء جب حملہ آور ہوئی تو اس ملک کے عوام پر یہ حقیقت آشکارا ہوئی کہ اس کی ماں ریاست کے پاس تو کرونا وائرس کے علاج کی سہولت اور پیسے ہی موجود نہیں۔بیرونی نقد اور طبی سامان پر مبنی امداد تو ایک طرف، منگتو سرکار نے تمام اضلاع کی انتظامیہ کو مخیر حضرات سے مالی تعاون کی اپیل یا مطالبہ کرنے کے احکاماتِ شاہی جاری کر دیئے ہیں۔

اس ضمن میں تمام ڈویژنل کمشنرز کو باضابطہ احکامات جاری کر دیئے گئے ہیں۔ 
ہمیں یاد ہے جب دو ہزار پانچ کا زلزلہ آیا تھا،اس وقت بھی ریاست نے بیرونی امداد اور ملک میں مخیر حضرات کی جانب دیکھنا شروع کیا تھا جس کے باعث عوام کی تباہ شدہ املاک کی بحالی اور ہزاروں زخمیوں کا علاج ممکن ہو سکا تھا۔

(جاری ہے)

لہذا ریاست کا مذکورہ اقدام یعنی پھر سے کرونا وائرس کی صورت میں ایک اور آفت آنے پر”امداد“ مانگنا یا کشکول اٹھانا کوئی نئی یا انہونی بات نہیں۔

ویسے بھی بائیس کروڑ بھوکے ننگے عوام کے جس ملک کی صحت کا بجٹ492 ارب روپے ہو اور دفاعی بجٹ1152 روپے ہو،وینٹی لیٹرز صرف دو ہزار دستیاب ہوں اور توپ خانے چار ہزار ہوں تو اس ملک کی ترجیحات کیا ہوں گی؟ اندازہ لگانا مشکل نہیں اور اگر ایسی ترجیحات سرِ فہرست ہوں گی تو کسی بھی مشکل گھڑی میں فقیروں کی طرح کشکول اٹھا کر کھڑے ہو جانا بھی عجیب نہیں ہو گا۔

ریاست بھی تو ایسی ہی ترجیحات کا تہیہ کیئے ہوئے ہے۔
لیکن سوال تو یہ ہے کہ جب ریاست ایک عام شہری سے، ماچس کی ڈبیا سے لے کر گھر بنانے کے لیئے زمین کی خریداری تک اور ایک سائیکل سے لے کر موٹر کار خریدنے تک ایکسائز ڈیوٹی، جنرل سیلز اور دیگر ٹیکس کے نام پر بھتہ وصول کر رہی ہے جو ساری زندگی دینا پڑتا ہے جبکہ انہیں سہولت ایک ٹکّے کی نہیں دے رہی بلکہ الٹا انہیں یعنی عوام کو ٹیکس نہ دینے کا مسلسل طعنہ دیئے جا رہی ہے اور ساتھ ہی ساتھ عوام کے نام پر اربوں روپے کے بیرونی قرضے پہ قرضے لیئے جا رہی ہے تو پھر آخر ریاست اور عوام کے بیچ، عوام کو نچوڑنے کے علاوہ کون سا رشتہ باقی رہ جاتا ہے؟اور اتنا پیسہ ملک کے کون سے ترقیاتی منصوبوں کی نظر ہو رہا ہے کہ ملک آج عوام الناس کے علاج کرنے کی بھی سکت نہیں رکھتا؟اور اس ضمن میں بھی کسی امداد کا محتاج ہے۔

 
آج حیرت اس امر کی بھی ہے کہ کرونا وائرس کی آفت کے باعث جہاں ہر بشر موت کے خوف سے دوچار ہے تو لاک ڈاؤن کے سبب شدید معاشی تنگی سے بھی دوچار ہے تو ایسے عالم میں ”نیا پاکستان“ کے وہ معمار اور تبدیلی کے خواہشمند عوام کے ہمدرد اور درد مند کہاں گم ہیں؟ جنہوں نے ملک میں تبدیلی برپا کرنے کے نام پر اربوں روپے عمران خان کے اسپانسرڈ دھرنوں اور ناچ گانوں پر خرچ کیئے اور پھر”نیا پاکستان“ کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد ان کے کسی انویسٹر نے ملک بھر میں چینی کی مصنوعی قلّت پیدا کر کے اربوں روپوں کی دیہاڑیاں لگائیں تو کسی نے پچاس لاکھ مکانوں کے نام پر اس بھولی عوام کی جانب سے جمع کروائی گئی کروڑوں روپے کی رجسٹریشن فیس ہڑپ کی۔

 
کسی نے ڈیم فنڈ کے نام پر اربوں روپے کا قوم کو چونا لگایا، کسی نے آٹا بلیک کر کے اپنے بینک بیلینس میں کروڑوں کا اضافہ کیا تو کسی نے ڈالر مہنگا کر کے کھربوں کا مال بنایا۔ کسی نے خیبر پختون خواہ بی آر ٹی میں اربوں روپے کا مال بنایا، کسی نے پرویز خٹک کے ہی دورِ حکومت میں ادوایات کے ایک غیر قانونی ٹھیکے میں جس میں تمام کی تمام ادویات غیر معیاری نکلیں،ستّر ملین کا مال بنایا تو کسی نے بحریہ ٹاؤن کے نام پر اسی غریب عوام کی جمع پونجی کے بل بوتے پر اپنے آپ کو ایشیاء کے امیر ترین افراد کی فہرست میں شامل کر لیا۔

 یہی وہ وقت ہوتا ہے جب کسی ریاست کے ایسے امراء کی جمع شدہ اور بے تحاشا دولت کی عوام کو ضرورت ہوتی ہے لیکن ہمارے ہاں، جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کے مالک ایسے امراء بھلا کیوں کسی ایسے غروبت پراجیکٹ پر اپنا پیسہ صرف کروایا جائے گا جہاں سے ان کے سرمایہ کی واپسی ممکن نہ ہو۔ کیونکہ آگے چل کر بھی ایسے دولت مند افراد ریاست کے ہاتھوں مختلف سیاسی منصوبوں میں استعمال ہوتے ہیں لہذا ان کی دولت میں کسی طور بھی کمی واقع نہیں ہونے دی جاتی بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ریاست خود بھی کسی حد تک ایسے عناصر کی نہ صرف مدد گار بلکہ حصہ دار بھی ہوتی ہے۔

 
اس ملک میں اگر عوام کی کوئی حقیقی نمائندہ حکومت ہوتی وہ ملک کے تمام کمشنرز کو یہ ہدایت جاری کرتی کہ عام چھوٹے کاروباری حضرات اور تاجروں کے بجائے ملک ریاض،جہانگیر ترین، عقیل کریم ڈیڈی،خسرو بختیار،حبیب گروپ،انور پرویز، فیصل واوڈا، سلمان اقبال(مالک اے آر وائے) کی طرح دیگر بڑے مگر مچھوں کو گردن سے پکڑ کر ان کی تجوریوں سے دولت نکالے اور کرو نا وائرس کے خاتمے اور اس وباء سے ہر لحاظ سے متاثرہ عوام کی فلاح پر خرچ کرے لیکن جب ایسے حقائق موجود ہوں کہ ریاست کا سربراہ خود تین سو کنال کے محل میں رہے اور اور مذکورہ مافیاز سے گھرا ہو تو ایسے مافیاز کی دولت کیونکر ملک کے غریب عوام پر خرچ ہو؟۔

 
سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی مخالفین کو صرف گالیاں دینے کے لیئے عوام کے ٹیکسوں کے چار کروڑ روپے مختص کر کے ملک کے وزیرِ اعظم نے غریبوں کو تین ہزار روپے ماہانہ کی بڑی بھاری بھرکم رقم دینے کا اعلان کیا ہے یعنی ایک سو روپیہ ایک دن کا،کاش اسے ملنے والے نام نہاد صحافیوں میں سے کوئی ایک آدھ بہادریہ سوال بھی کر لیتا کہ جنابِ وزیرِا عظم ایک سو روپے میں ایک فرد دو وقت کی روٹی نہیں کھا سکتا تو ایک سو روپے میں غریب خاندان اپنا پیٹ کیسے پالے گا؟۔

 
ریاست کی ترجیحات کیا ہیں اور موجود زمینی حقائق کیا ہیں؟ مذکورہ گزارشات ایک ہلکی اور مختصر سی جھلک ہے یعنی کرنا کیا چاہیئے اور ہو کیا رہا ہے؟ یہ ساری صورتِ حال دیکھنے کے بعد اس بات کا اندازہ لگانا بھی مشکل نہی کہ ملک کو ایک فلاحی ریاست بنانے کے لیئے موجودہ حکمرانوں کی نیت، کوشیں اور سمت ہی درست نہیں۔ لہذا تبدیلی سرکار کو ملک کو فلاحی ریاست بنانے کے جھوٹے دعوے کر کے عوام کو گمراہ کرنے کی کوششوں سے حد درجہ گریز کرنا چاہیئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :