سمارٹ لاک ڈاؤن

پیر 6 جولائی 2020

Aman Ullah

امان اللہ

میں ایسی قوم سے ہوں جس کے وہ بچوں سے ڈرتا ہے ۔ صاحبو!کہیں دھوکے میں نہ رہیے گا میں دراصل میں کرونا وائرس کی بات کر رہا ہوں وہ ہم سے ڈرتا ہے تبھی تو وہ ہمیں شکار نہیں کرتانا ۔ اور جب کہ ابھی تک وہ ہمیں یاہمارے جاننے والے کو متاثر نہیں کر سکا تو ہم کیسے مان لیں کہ اس کا وجود ایک حقیقت ہے بلکہ ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اب تو ہم یہ بھی کہیں گے ، ایچ آئی وی وائرس جوکہ ایڈز جیسی لاعلاج بیماری کا موجب بنتا ہے اس کا بھی حقیقت میں کوئی وجود نہیں کیوں کہ ابھی تک ہمیں یا ہمارے جاننے والے کو اس کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

درحقیقت بات تو یہ ہے کہ ہم ایسی قوم سے ہیں جن کا لیبارٹری ٹیسٹ اگر نارمل آجائے تو افسوس کرنے لگ جاتے ہیں کہ خواہمخواہ پیسے ضائع کیئے۔انہی سوچوں میں گم ، مٹر گشت کرتا ہوامیں مارکیٹ پہنچ گیا۔

(جاری ہے)

یہ ڈھڈی موڑ کے ساتھ نیا شہرجھنگ کا معروف بازار سوموار بازار کے نام سے مشہور ہے۔لوگ دو اور چار کی ٹولیوں میں بٹے
خریداری میں مصروف ہیں ۔ میری طرح ہر کوئی ایس او پیز لی دھجیا ں اڑا رہا تھا ۔

اور دکانوں میں رش کا یہ عالم ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ۔ میں ایک دکان کے باہر لگے منیاری کے سٹال پر رکتا ہوں ، جسے ایک چھوتا چلاتا ہے ۔ میں اس سے پوچھتا ہوں کہ مارکیٹیں کھلے تو کافی دن ہو چکے ہیں اور حکومت نے سختی سے تنبیہ بھی کی ہے کہ سوشل ڈسٹینسنگ کو
برقرار رکھا جائے کھوے سے کھوا چلا رہاہے ؟چھوٹا کیا کہتا ہے کیونکہ وہ مجھے جانتا تھا کہ میں ایک ماسٹر ہوں ۔

اسی کی زبانی سنیئے ۔۔۔۔ سراما ن اللہ صاحب !اس کے بہت سے اسباب ہیں ۔ سب سے پہلے تو یہ کہ دو ماہ بعد دکانیں کھلی ہیں تو اتنا رش ہونا ایک قدرتی امر ہے۔کیوں کہ لوگوں کی ضروریات اور استعمال تو لاک ڈاؤن کے دوران بھی وہی رہے گا ،
 لہذا لاک ڈاؤن کھلنے سے رش بن گیا ۔ دوسرا یہ کہ جب اعلان کیاگیا کہ ہفتے میں چار دن کام ہو گا اور تین دن چھٹی ہوگی تو سمجھیں سات دن کا بوجھ چار دنوں پر تقسیم کر دیا
تیسرا یہ کہ مارکیٹ کے اوقات کار بجائے بڑھانے کے گھٹا دیئے گئے ۔

یعنی چوبیس گھنٹے والا دن، جس میں ہم نے دونوں کا بوجھ ایڈجسٹ کرنا تھا ، اس کی ٹائمنگ کم کردی گئی ۔لہذا
اس وجہ سے رش بڑھ گیا ۔چھوتھا اورسب سے بڑا سبب یہ ہے کہ عام حالات میں جب کہ ہمیں دکانیں کھولنے اور اور بند کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی لاک ڈاؤن کا سامنا تھاپھر بھی عید کی آمد کے دنوں میں رش زیادہ ہو جاتا تھا اوراب جب کہ تمام اسباب اکٹھے ہوگئے ہیں تو رش کا زیادہ ہونا کچھ حیرانی کی بات نہیں ۔


میں نے کہا تم اتنے سیانے ہو ۔یہ بتاؤ پھر اس کا حل کیا ہے وہ کہنے لگا سر جی !اس رش کو کم کرنے کی ایک ہی صورت ہے کہ حکومت ہفتے میں سات دن اور چوبیس گھنٹے کام کرنے کی
اجازت دے،ورنہ دوسری صورت میں پھر سے لاک ڈاؤن لگا دے ۔لیکن یہ آدھا تیتر اور آدھا بٹیر والا معاملہ نہ کرے ۔اب یہ مویا کرونا کوئی ہمارا پابند تھوڑی ہے کہ تین دن کام کرے گا اور ہمارے کام کے دنوں میں یہ چار دن کی چھٹی پر چلا جائے گا ۔

لہذا یہ سمارٹ ڈاؤن والی ڈرامے بازی بند کی جائے۔میں سوچنے لگا ، سو روپے دیہاڑی والا یہ چھوٹا
درحقیقت کتنا بڑا ہے کم ازکم ہماری وفاقی و صوبائی حکومت سے تو بڑی سوچ رکھتا ہے کہ جنہیں دو جمع دو چار والی سیدھی سی بات سمجھ نہیں آسکی ۔پھر میں سوچنے لگا ، کیا ہماری حکومت سوچتی بھی ہے ؟

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :