کورونا اور کفایت شعاری

منگل 7 جولائی 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

پاکستان کی پہلی کابینہ کا اجلاس تھا‘ اے ڈی سی لیفٹیننٹ گل حسن نے پوچھا ’’سر اجلاس میں چائے پیش  کی جائے یا کافی‘‘ قائداعظم نے چونک کر سر اٹھایا اور سخت لہجے میں فرمایا ’’ یہ لوگ گھروں سے چائے کافی پی کر نہیں آئیں گے‘‘ اے ڈی سی گھبرا گیا‘ آپ نے بات جاری رکھی ’’ جس وزیر نے چائے کافی پینی ہو وہ گھر سے پی کر آئے یا پھر واپس گھر جا کر پیئے،قوم کا پیسہ قوم کے لیے ہے وزیروں کے لیے نہیں‘‘ اس حکم کے بعد جب تک قائداعظم برسر اقتدار رہے کابینہ کے اجلاسوں میں سادہ پانی کے سوا کچھ سرو نہ کیا گیا۔

قائداعظم کے بعد آہستہ آہستہ ملکی خزانے کو بڑی بےدریغی سے خرچ کیا گیا۔کورونا کی وباء کے باعث پچھلے چار ماہ  سے  پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی کاروبار زندگی تقریباً بند ہو چکاہے۔

(جاری ہے)

ذرائع آمدن کم ہو کر رہ گئے ہیں۔ٹرانسپورٹ  کا  کاروبار کافی متاثر ہوا ہے۔بیرون ملک سے کام کرنے والے افراد واپس آگئے ہیں۔خاص کر سکول بند ہونے کے باعث اس شعبے سے متعلقہ متوسط اور غریب طبقے کے لوگوں کے لئے گزر بسر کرنا مشکل ہے۔

  حکومت کی طرف سے دی گئی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا بہت ضروری ہے کیوں کہ کورونا کے علاج کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں جگہ بہت کم  ہے اور پرائیویٹ ہسپتالوں میں علاج کروانا غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔گھر میں قرنطینہ کے باعث دیگر افراد پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔تعلیم سے وابسطہ بے شمار افراد متاثر ہوئے ہیں ۔مہنگائی کے اس دور میں اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔

رمضان سادگی سے گزرا، عید الفطر بھی نئے کپڑوں کے بغیر گزری،اب عیدالاضحی آنے والی ہے،دوسر ے اخراجات کے ساتھ ساتھ قربانی کے لئے جانور لینابھی اہم ہے۔کورونا کی وبا کے باعث سماجی فاصلے کے اصول کے تحت دوسرے لوگوں سے ملنا ملانا تو کم ہے لیکن گھریلو خراجات بڑھے ہیں جب کہ ذرائع آمدن میں واضح کمی ہوئی ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں بھی تاحال اضافہ نہیں کیا گیا۔

بازار میں جانا کم ہوا ہے لیکن آن لائن آرڈرز کی بھر مار ہے۔ہر چیز آن لائن حاضر  ہے۔کپڑے،جوتے،کتابیں ،الیکٹرانکس کا سامان،پھل سبزی،فاسٹ فوڈ اور تیار کھانا سب فون کی ایک کال پر آجاتا ہے۔بجلی ، گیس اور پانی کے بلوں کے ساتھ  ان سہولتوں کے کم استعمال کی درخواست کی جاتی ہے جس پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔کوشش کریں گھر میں ایک وقت میں ایک اے سی استعمال ہو۔

اسی طرح گیس  کی بچت کریں اور پانی کا بھی  مناسب استعمال کریں۔آج کل بچوں کی آن لائن کلاسز کی وجہ سے انٹرنیٹ کا خرچہ بڑھ گیا ہے۔کلاسز کے اوقات کے علاوہ انٹرنیٹ استعمال نہ کریں ۔اس وقت کو پڑھنے یا دوسرے مثبت کام کے لئے استعمال کریں۔واٹس ایپ میں آج کل بےشمار گروپس بنے ہوئے ہیں اپنے موبائل کی ڈاٹا اور سٹوریج سیٹنگ میں میڈیا آٹو ڈاؤن لوڈ کو ڈس ایبل کریں۔

اس سے آپ کے ڈاٹا اور وقت کی بچت ہوگی۔کتب بینی آج کل ہمارے معاشرے سے کم ہور ہی ہے۔اسے دوبارہ اپنانے کی ضروررت ہے ۔آج کل  گھریلو بجٹ کے لئے ایک ایپ"حساب کتاب( Hysab Kytab)" استعمال کر کے بچت کی جا سکتی ہےاس ایپ میں بینک اکاؤنٹ کا ریکارڈ،تنخواہ کی تفصیل،پنشن،بونس،کرایہ،پرافٹ،بچت،اخراجات  بشمول،ٖفوڈ، ٹرانسپورٹ،سفر،فیول،میڈیکل،تعلیم،گھریلو اخراجات،اشیاء خوردونوش،یوٹیلیٹی بلز،شاپنگ اور ذاتی اخراجات کا اندراج کیا جاسکتاہے۔

کوشش کریں  ہفتہ میں ایک  دفعہ خریداری کریں۔سٹیٹس کو برقرار رکھنے کی وجہ سے اکثر اخرجات میں اضافہ ہوتا ہے۔فیشن،ٹرینڈ اور سیزن سیل سے اجتناب کریں۔سادگی اور کفایت شعاری کو اپنائیں۔اگر چہ آج کل کورونا کی وجہ سے  سماجی  فنکشن کم  ہو رہے ہیں۔ شادی بیاہ کی رسموں کو مستقل بنیادوں پر سادگی سے مکمل کرنا چاہئے۔مسجد میں نکاح  کی رسم اچھی بات ہے لیکن بعد میں کھانے کا انتظام بڑے بڑے شادی ہالز میں نہیں ہو نا چاہئے۔

جہیز کی ڈیمانڈنہیں  کرنی چاہئے ۔ہمارے معاشرے میں  شادی کا مروجہ نظام غریب بچیوں کی شادی میں ایک رکاوٹ بن چکا ہے،جسے ختم کرنا ہم میں سے ہر ایک کی ذمہ داری ہے۔ کیونکہ ان رسومات کی وجہ سے جتنے بھی لوگ متاثر ہونگے ان کا وبال رسم و رواج پر عمل کرنے والوں پر بھی ہوگا۔ملکی اشیاء خریدیں ۔ برانڈ کی دوڑ سے نکلیں۔ملٹی نیشنل کمپنیوں کے چنگل سے نکلیں۔

حکومتی سطح پر بھی صرف زبانی دعوں کی بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔غربت کے خاتمے کے لئے میٹنگ فائیو سٹار ہوٹل میں کرنا ضروری نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے: ’’اپنی معیشت میں توسط اختیار کرنا  آدمی کے فقیہہ ہونے کی علامتوں میں سے ہے"۔بھلے زمانوں میں برادری میں ناک اونچی رکھنے کی خاطر لوگ اپنے گھر کی چیزیں بیچنے   اور قرض لینے پر مجبور ہو جاتے تھے۔

اسلامی نقطہ نظر سے اسراف تین چیزوں کا نام ہے۔ایک ناجائز کاموں میں دولت خرچ کرنا،دوسرے جائز کاموں میں خرچ کرتے ہوئے حد سے تجاوز کر جانا،تیسرے نیکی کے کاموں میں اللہ کی رضا کی بجائے  ریا اور نمائش کے لئے خرچ کرنا۔ عموماً معاشرے میں تین قسم کے معیارِ زندگی پائے جاتے ہیں:اول  : رفاہیت بالغہ ‘یعنی عیاشانہ معیارِ زندگی ‘جس میں اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی چیز پسند کی جاتی ہے۔

اس طرح حد سے زیادہ بلکہ بے جا خرچ کیا جاتا ہے اور دولت کو ضائع کیا جاتا ہے۔ دوم: رفاہیت ناقصہ‘ یعنی پست معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات بھی پوری طرح حاصل نہیں ہوتیں اور جانوروں کی سی زندگی بسر کی جاتی ہے۔سوم: رفاہیت متوسطہ‘ یعنی درمیانہ معیارِ زندگی‘ جس میں زندگی کی ضروریات متوسط درجے میں حاصل ہوتی ہیں اور انسان اتنی فراغت پاتا ہے کہ وہ اپنی اور دوسروں کی بھلائی کے لیے بھی کوئی کام کر سکے اور خدا کو بھی یاد کر سکے۔

اللہ تعالیٰ نے رفاہیت بالغہ یعنی عیاشی کو نا پسند فرمایا ہے اور ایسی معاشرت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے جس سے انسان دنیا کی طلب کے اندر ہی الجھ کر رہ جائے اور معیشت کی باریکیوں میں اُتر  جائے۔خلافت کا بار گراں اٹھاتے ہی فرض کی تکمیل کے احساس نے حضرت عمر بن عبد العزیزکی زندگی بالکل بدل کر رکھ دی۔ وہی عمر جو نفاست پسندی اور خوش لباسی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے، جو خوشبو کے دلدادہ تھے، جن کی چال امیرانہ آن بان کی آئینہ دار تھی، جن کا لباس عمدہ ترین تھا اب سراپا عجز و نیاز تھے۔

میانہ روی اختیار کرنا بھی شخصیت کی پختگی اور بالغ نظری کی علامت ہے۔ یعنی ایسا نہ ہو کہ اگر ایک وقت ہاتھ کشادہ ہے تو انسان اللّوں تللّوں میں پیسہ اڑا دے اور اگر کسی وقت تنگی ہو گئی ہو تو انسان بالکل بجھ کر رہ جائے اور نہ ایسا ہو کہ جہاں خرچ لازمی اور ضروری ہو وہاں وہ ہاتھ روک لے‘اور ہر وقت درہم و دینار اور ڈالر ز کا حساب کرتا رہے ۔ زندگی کی چکاچوند روشنی اور نمود و نمائش  سے دور رہنے والے لوگ ہمیشہ سے موجود رہے ہیں۔۔سادہ اور پروقار زندگی گزاریں۔ نیکی اور سماجی بہبود کے کاموں میں حصہ لیں،یہ آزمائش کا وقت ہے،زندہ قومیں باہمی تعاون کی بدولت ایسے مراحل بخوبی طے کر لیتی ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :