وادی کمراٹ ۔ایک منفرد سیاحتی مقام

پیر 27 جولائی 2020

Amjad Hussain Amjad

امجد حسین امجد

چترال داستان میں  مستنصر حسین تارڑ لکھتے ہیں کہ" لواری۔۔۔ اہل چترال کے لئے  سانس لینے کا۔۔۔باہر کی دنیا سے رابطے کا۔۔۔خوراک اور دیگر اشیائے ضرورت کا تقریباً  واحد راستہ ہے۔یہ بند ہو جاتا ہے تو  چترالیوں کے گھروں میں جو چائے بنتی ہے، اس میں شوگر نہیں ہوتی۔۔ ان کے چولہے سرد ہونے لگتے ہیں، مشینیں تھم جاتی ہیں۔۔ ان کے دل تھم جاتے ہیں۔

۔ لاہور، پشاور، کراچی یا کوئٹہ میں کوئی شخص قطعی طور پر ایک چترالی کی  اس بے بس تنہائی کی بے چارگی سے  آگاہ نہیں ہو سکتا کہ اس کے چاروں جانب راستے کھلے ہیں" ۔۔تاہم 2017 میں لواری ٹنل کے کھلنے سے یہ مشکلات کافی حد تک کم ہو گئی ہیں۔لواری ٹنل اپر دیر اور چترال زیریں کو ملانے کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔اپر دیر  مالاکنڈ ڈویژن  کا ایک ضلع ہے۔

(جاری ہے)

کوہستان کا علاقہ قدرتی حسن، صاف شفاف چشموں، بہتے دریاوں، آبشاروں،جھرنوں، سبزہ زاروں اور جنگلات کا مرکب ہے۔

کوہستان کے علاقہ میں پاکستان کے سب سے بڑے قدرتی سیاحتی مقام وادی کاغان اور وادی سوات بھی واقع ہیں۔اسی کے ساتھ وادی کمراٹ بھی واقع ہے۔کُمراٹ پاکستان کے ضلع دیر بالا میں واقع ایک خوبصورت وادی اور قدرتی خطہ ہے۔یہ  جنت نظیر وادی اسلام آباد سے تقریباً 400 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے  اور تقریباً    11   گھنٹے کی مسافت ہے۔یہ وادی پاکستان  کا سوٹزر لینڈ بھی کہلاتی ہے اور یہاں غیر ملکی سیاح بھی آتے ہیں۔

بادلوں سے گھرے برف پوش پہاڑوں کے درمیان واقع اس وادی میں کئی سرسبز بانڈے (چراہ گاہیں) ہیں۔ یہ صوبہ خیبر پختونخوا کے چند خوبصورت ترین وادیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وادئ کمراٹ کی سیر کرنے کے لیے ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آتے ہیں۔ وادی کمراٹ کے مقبول سیاحتی مقام کٹورا جھیل، جہاز بانڈہ ،سراج آبشار، کالا چشمہ ہیں۔ اسی طرح بڈگوئی ٹاپ پر بھی جیپ سے جایا جا سکتا ہے۔

۔ کمراٹ ایک سر سبز و شاداب وادی ہے جس کو مختلف خوبصورت پہاڑوں نے گھیرا ہوا ہے اور بیچ میں مختلف چھوٹی بڑی ندیاں بہتی ہیں۔یہاں کی کٹورا جھیل سطح سمندر سے 11500 فٹ بلندی پر واقع ہے۔ گلیشئیرز کے خوبصورت فیروزی  مائل رنگ کے پانی والی اس جھیل کے اردگرد پہاڑ وادی نیلم کی رتی گلی جھیل کے پہاڑوں سے مشابہت رکھتے ہیں۔دیر بالا کے ضلع ہیڈ کوارٹر سے چند کلومیٹر قبل یادگار فرید خان شہید (باب کمراٹ) سے ایک شاہراہ شروع ہوتی ہے جو آپ کو اس حسین و دلکش وادی تک لے جاتی ہے۔

البتہ یہ بات یاد رکھیے گا کہ یہ سڑک آپ کو شرینگل تک تو بنی ہوئی ملے گی، جس کے بعد راستہ کچھ خراب ہے، لیکن اب وادی کمراٹ کے پہلے گاؤں تھل تک سڑک پر کام تیزی سے جاری ہے ۔اس کے راستے میں  بے نظیر بھٹوشرینگل یونیورسٹی بھی آتی ہے۔جس کی عمارت بہت خوبصورت ہے۔یہاں  موبائل سروس اور انٹرنیٹ  کے استعمال میں دشواری ہوتی ہے ۔بہترہے آنے سے قبل کسی سے رہنمائی حاصل کر لیں۔

اس کے علاوہ رہائش اور انتظامی امور کے مسائل بھی ہیں۔ یہاں مقامی افراد سیاحوں سے کم بات کرتے ہیں اور وہ اردو کم ہی سمجھ پاتے ہیں۔ یہاں زیادہ تر لوگ پشتو یا کوہستانی بولتے ہیں۔مئی  2016  میں   موجودہ وزیرِاعظم عمران خان کے دورہ کمراٹ کے بعد سے بڑی تعداد میں سیاح وادی کمراٹ اور جہاز بانڈہ کی خوبصورتی سے آگاہ ہوئے ہیں۔ہمیں بھی نومبر 2016 میں کمراٹ کی وادی اور جندرئی میں  واقع  ہاشمی میوزیم دیکھنے کا موقع  ملا۔

یہاں تھل کی جامع مسجد دارالسلام، لکڑی کے تختوں سے بنائی گئی نہر، دریائے پنجکوڑہ، کالا چشمہ، دوجنگہ، درہ بدوگئی، چروٹ بانڈہ، جہاز بانڈہ اور آس پاس کی آبشاریں، جندرئی گاؤں، کٹورا جھیل اور برف پوش پہاڑوں کے نظارے آپ کی آنکھوں کو خیرہ کرتے ہیں۔
کمراٹ کے جنگلات جنگلی حیات سے بھی بھرپور ہیں۔ یہاں مارخور، ہرن اور چیتے وغیرہ پائے جاتے ہیں۔

بندر، جنگلی بھیڑ عام طور پر آسانی سے دیکھے جاسکتے ہیں۔ پرندوں میں مرغ زریں کی بڑی تعداد ان جنگلوں میں نظر آئی گی جبکہ اس جنگل کے بیچ میں سے بہتے دریائے پنجکوڑہ میں ٹراوٹ فش کی وافر مقدار موجود ہے۔ سیاح یہاں پر کیمپنگ کے ساتھ پرندوں اور مچھلی کا شکار بھی کرتے ہیں۔ جہاز بانڈہ  میں ایک ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے۔
 وادی لاموتی  کمراٹ میں  ہاشمی میوزیم بھی موجود ہے۔

یہ میوزیم ایک مقامی سماجی کارکن "راجہ تاج محمد" نے اپنے گاؤں جندرئی کے نام سے "ہاشمی میوزیم" کے نام سے ایک پرانے اور تاریخی سامان کو جمع کرنے کے لئے ایک میوزیم قائم کیا تھا ، لیکن وہ اپنے کام کی ہمت اور وابستگی رکھتے تھے اور انہیں جدوجہد کرنا پڑی۔ دن رات پرانی چیزوں کو جمع کرنے کے لئے۔ اس نے سب سے پہلے اپنے گاؤں سے آغاز کیا اور پھر وہ ہاشمی میوزیم کے لئے روزانہ استعمال کی عام اور انوکھی چیزوں کو جمع کرنے کے لئے تھل ، کالکوٹ ، بیار ، باریکوٹ اور پیٹرک گیا۔

بہت سے لوگ پرانی چیزیں بھی خوشی خوشی ہاشمی میوزیم میں جمع کراتے ہیں۔ افتتاحی تقریب 2003 میں منعقد ہوئی تھی ، جب یہاں روزانہ استعمال ہونے والے کچھ سامان ، کچھ قدیم ہتھیار ، کچھ زراعت کے آلے ، شکار جانوروں کی کھوپڑی ، لکڑی کی چھوٹی کرسیاں اور لکڑی کے جوتے وغیرہ موجود ہیں. اور قیمتی چیزیں جاری رکھی جاتی ہیں حنوط  شدہ مارخور بھی موجود ہے۔

اس علاقہ میں حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے تحت مختلف پراجیکٹس پر کام ہو رہاہے۔خیبر پختونخوا حکومت نے صوبے میں سیاحتی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لئے ایک اور اہم پیشرفت کے طور پر ، ضلع بالائی دیر میں وادی کمراٹ کے مشہور سیاحتی مقام پر کیبل کار کا منصوبہ شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 14 کلو میٹر طویل کیبل کار کمراٹ وادی کو چترال  زیریں کی وادی مداکلاشت سے جوڑے گی۔


مجوزہ کیبل کار دنیا کی سب سے لمبی اور بلند ترین کیبل کار ہوگی ، اور اس کی تکمیل کے بعد صوبے میں 80 لاکھ غیر ملکی اور مقامی سیاحوں کو راغب کرنے کی توقع کی جا رہی ہے ، اور اس طرح روزگار کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں گے اور صوبے میں معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا۔اس منصوبے کو تقریبا 32 ارب روپے کی لاگت سے مکمل کیا جائے گا۔ کیبل کار میں دونوں اسٹیشنز پر کار پارکنگ کی سہولیات موجود ہوں گی جبکہ اس میں ایک انٹرمیڈیٹ اسٹیشن کے ساتھ ساتھ ریستوران اور دیگر متعلقہ سہولیات بھی ہوں گی۔


مجوزہ منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی پانچ سے چھ ماہ کی مدت میں مکمل ہوگی۔ مجوزہ کیبل کار بین الاقوامی معیار پر تعمیر کی جائے گی ، جو مکمل ہونے پر بڑی تعداد میں غیر ملکی اور مقامی سیاحوں کو راغب کرے گی۔اور پاکستان میں سیاحت کو فروغ ملے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :