تخت ِ لاہور بدست سلطنتِ عثمانیہ

ہفتہ 21 ستمبر 2019

Amjad Mahmood Chishti

امجد محمود چشتی

 وطن ِ عزیز کی سیاسی تاریخ میں تختِ لاہور کی اصطلاح موروثی سیاست اور ارتکاز اختیار ات کے موجب خاصی بدنام رہی ۔ اتنی بدنام ہوئی کہ خوب نام کمایا ۔ ابھی کل کی بات ہے کہ تختِ لاہور پہ یوسفِ زماؤں یعنی ” میاؤوں “ کا راج تھا ۔ ان کے بقول ان کے ادوار میں رعایا حکمرانوں سمیت خوب خوشحال تھی ۔ نوکر شاہی توندوں سمیت تنو مند اور معیشت اڑان پذیر تھی ۔

چڑیائیں چہچہاتی تھیں ۔ تیل اور گیس ارزاں جبکہ سڑکوں پُلوں کی فراوانی تھی ۔ کئی بار ایشین ٹائیگر بننے کے قریب پہنچے مگر ہر بار جنگل نکالا ملا کیوں کہ چھانگا مانگا سے خاص نسبت رہی ۔ مگر بعد ازاں ان کو شکوہ رہا کہ وہ جب بھی بانسری بجانے پہ آتے ،بانسری کا بانس ہی بڑے محفوظ ہاتھوں میں چلا جاتا ۔پھر وہ بانسری رانجھے کی رہتی نہ نیرو کی۔

(جاری ہے)


شکایت یہ بھی ہے کہ اگر ان کے ہاتھوں سے تیشے نہ چھینے جاتے تو میٹروؤں کے نیچے تک دودھ کی نہریں بہا کر دکھاتے۔ عام تاثر ہے کہ موصوف اتنی پُلیں بنا چکے کہ پُل صراط کا کھٹکا بھی جاتا رہا ۔
 پولیو اور ڈینگی کے خلاف بر سر پیکار رہے ۔ بارشیں اور سیلاب فیورٹ تھے کہ ان میں کچھ کر دکھانے کے مواقع ہاتھ آتے ۔ لاہور کے والی حضرت گنج بخش کے طفیل انہیں مختلف الانواع ” گنج “ بھی بخشے گئے ۔

( یہاں گنج سے مراد خزانہ لیا جائے ، باقی آ پ کا حسنِ ظن ہے )تبھی تو محاورے میں بھی توسیع کرنا پڑی کہ ،، سیاسی حمام میں سبھی ننگے اور کچھ گنجے بھی ہیں ۔ مستزاد یہ کہ تختہ بھی تخت کی شہ رگ کے انتہائی قریب ہوتا ہے ۔ ما ل بادشاہی روزنِ زنداں پہ منتج ہوتی ہے ۔ پھر سے کل کی بات ہے کہ میرِ کارواں ڈان لیکس پہ اوپر والوں سے الجھ پڑے ۔ پانامے برپا ہوئے اور بات اقاموں تک آ پہنچی ۔

ہم نے دیکھا کہ تخت گرا کر تاج بھی اچھال دئیے گئے ۔ اب تخت ِ لاہور پہ بظاہر مرد و دانِ حرم کو مسند وں پہ بٹھانے کی گھڑی آئی اور ” ہما “ شرافت و بے چارگی کے ایک شاہکار ” نمونے “ کے سر ہو گیا ۔ لہٰذا ہما کے ساتھ ساتھ ایک امیر ترین کی کاوشوں سے سلطنت ِ عثمانیہ کے پہلے اور پراکسی چشم و چراغ سردار عثمان خان کے ذریعے تخت ِ لا ہور کو سلظنت ِ عثمانیہ میں بدل دیا گیا ۔

چشمِ فلک کو دکھایا گیا کہ شہنشاہ سادگی کی معراج پہ ہیں ۔ کفایت شعاری کا یہ عالم کہ ایک گھر میں بجلی تک نہ ہے ۔ اب اس ملک کی تقدیر کو بدلنے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ راقم الحروف بزدار صاحب کی تعیناتی کی خبر پہ جہاں انگشتِ بدنداں ہوا وہیں احساس تفاخر بھی محسوس کیا ۔ کیونکہ سردار صاحب جامعہ زکریا ملتا ن کے شعبہ سیاسیات میں ہمارے سیشن فیلو تھے ۔

سادہ منش اور کم گو ہونے کے ساتھ اچھے اخلاق کے مالک تھے ۔سینئر ہونے کے ناطے ان کی عزت کرتے ۔ بلا کی نظر رکھتے ۔ سیاسی و تدریسی سر گرمیوں سے بس نام کا لگاؤ تھا مگر کچھ دل کے معاملات سے ہرگز انجان نہ تھے بلکہ خاص ملکہ رکھتے تھے ۔ پھر قانون ہاتھ لینے کی خاطر قانون کی ڈگری بھی لی ۔ عملی سیاست میں آئے تو ہر سیاسی جماعت کو نمائندگی کا شرف بخشا ۔

اور قسمت نے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ۔ آج وہ سینکڑوں بد خواہیوں کے باوجود اقتدار کا ایک سال مکمل کرنے کی سعادت حاصل چکے ہیں ۔ اب تو انہیں دربار نبی ﷺ سے بھی بلاوے آنے لگے ہیں اور گڈ گورننس کی دعاؤں کیلئے سر زمین حجاز بھی جانے لگے ہیں ۔ اور در ِ کعبہ کھلوا کر اندر جانے کی درخواست بھی کی ہے ۔ 
 صداقت ، امانت اور شرافت میں سب کو پیچھے چھوڑ چکے ہیں ۔

ہر سال اپنے اثاثے کم کرتے جارہے ہیں ۔ پھر بھی باسٹھ تریسٹھ پہ پورے ہیں ۔ کابینہ لگ بھگ چالیس کی ہوچکی ہے جبکہ اعزازی ترجمانوں کا شمار تک نہیں ۔ شائد اسکی وجہ ان کی کم گوئی اور شرم آور طبیعت ہے کہ اپنی کارکردگی کی تشہیر اور کوتاہیوں کے دفاع کیلئے زبان غیر کا سہارا مجبوری ٹھہر ا ہے ۔ وگرنہ تخت لاہور والے تو شوبازیوں کیلئے خود سے بہتر کسی کو نہ سمجھتے تھے ۔

مگر حال ہی میں ایک ترجمان اعلیٰ نحیف دفاع کی پاداش میں بر طرف یا پھر مستٰعفی ہو چکا ہے ۔ شہباز گِل نے اپنے گُل ہونے سے ایک یوم قبل تڑی لگائی کہ جس کو بزدار صاحب کی شکل نا پسند ہے جماعت چھوڑ دے ۔ اگلے روز موصوف نے حکومت چھوڑ دی ۔ گویا تمام حکومتی اراکین کیلئے پیغام کہ کمزور دفاع اور غیر موثر تعریف اب نا قابلِ قبول ہے ۔سنا ہے اب ترجمان اعلیٰ کیلئے کسی ” خوبصورت “ اضافے کا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔

 حسن نثار فرماتے ہیں ” شہباز شریف مرغی اور بزدار بطخ ہیں ۔ مرغی انڈا دے کر شدید شور کرکے اپنی کارکردگی کا اظہار کرتی ہے جبکہ بظخ خاموشی سے انڈا دے کر چلتی بنتی ہے “۔ اصل میں مرغی والا کام ترجمان کرتے رہتے ہیں تو بزدار کو کیا ضرورت کہ انڈوں کی بابت کھپے ۔سلطنت عثمانیہ میں تخت لاہور کے ریکارڈوں کے بھی پرخچے اڑائے جارہے ہیں ۔

مخالفین سے سیاسی انتقام، نوکریوں سے بر خاستگی ۔ اپنوں کی تعیناتی اور طرز حکمرانی کا تیا پائینچہ امتیازی خصوصیات ہیں ۔بزدار صاحب کے تمام عزیز و اقارب قریب قریب وزیر اعلیٰ کے اختیارات حاصل کر چکے ہیں اور اپنے اپنے علاقوں میں دھاک بٹھا رہے ہیں ۔ بزدار صاحب کے سسر بغیر کسی عہدے اور حیثیت کے ضلع خانیوال میں سکہ جمائے ہیں ۔ آخر بڑے لوگوں کے سسرال کا بھی اک بڑا مقام ہوتا ہے ۔

یاد رہے کہ پاکپتن وزیر اعظم اور میا ں چنوں وزیر اعلیٰ کے سسرالی شہر ہیں ( میاں چنوں غلام حیدر وائیں کی وجہ سے بھی عالم میں بے مثال رہا ) ۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ ایسی ویسی باتوں کا میڈیا پہ آنا بھی قصہ پارینہ ہوتا جارہا ہے جس کا اشارہ چیف جسٹس بھی دے چکے ہیں ۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ حاسدوں اور بد خواہوں کی عثمان خان کے خلاف تا حال ایک بھی چل نہیں پا رہی کیونکہ وزیرا عظم کی روحانیت کو اپنے درست انتخاب پہ یقین ِکامل ہے اور وہ کسی بھی معاملے میں کسی سے بھی کسی قسم کی بات سننے کو تیار نہیں ۔

یہاں اک حکایت کا ذکر ضروری ہے کہ 
 ” بہت زیادہ عقل مند اور بہت زیادہ بے وقوف میں فرق نہیں رہتا کیونکہ د و نوں کسی کی نہیں سنتے “ تاہم اس عالم میں بھی ہم ، تخت لا ہور پہ بر اجمان سلطنتِ عثمانیہ کے اکلوتے ، اتفاقیہ ، پہلے اور آخری شہنشاہ کی کامرا نیوں اور استحکامیوں کیلئے دعا گو ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :