نا شکرا انسان!!!

جمعرات 23 جولائی 2020

Aneem Chaudhry

انعیم چوہدری

میرے دادا ابو پیدل سفر کرتے تھے اور میرے والد محترم سائیکل پر اور ہم لوگ گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں . ہم میں سے 95 فیصد لوگ گزرے کل سے بہتر ذندگی گزار رہے ہیں اپ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا یہ سچ نہیں. جی ہاں یہ سچ ہے تو پھر اج کا انسان اتنا نا شکرا کیوں ہے ؟اپ کسی روز اپنے بچپن اور اپنے بچوں کے بچپن کا موازنہ کریں  اپ کو ان میں زمین آسمان کا فرق ملے گا.

مجھے سکول جاتے ہوئے دس روپے ملتے تھے اور اسی میں سکول انے جانے کا کرایہ بھی شامل تھا لیکن اج جب میں اپنی بیٹی کو دس روپے دیتا ہوں تو وہ میرا مذاق اڑاتی ہے پاپا اب اس میں اتا کیا ہے. ہم لوگ بچپن میں ایک ہی پنکھے کے نیچے سوتے تھے اور پہلی چارپائی کے لئے لڑی ہوتی تھی اج میری باری ہے کل تو سویا تھا لیکن اج میرے بچے اے سی میں سوتے ہیں بچپن میں ہمارے گھر فریج نہیں تھا میں خود بڑی دفعہ محلے والوں سے برف مانگ کر لیا ہوں لیکن الحمداللہ اب ہمارے گھر میں تین فریج ہیں اور میرے بچے ان سے بھی خوش نہیں کل میری بڑی بیٹی بولی پاپا اپ میرے لئے ڈسپنسر کیوں نہیں لیتے مجھے سے بار بار یہ فریج نہیں کھولی جاتی .

ہمارے گھر میں ایک بلیک اینڈ وائٹ ٹیلی ویژن ہوتا تھا اور آدھا محلہ شام کو ہمارے گھر ٹیلی ویژن دیکھنے اتا تھا انٹینا گھومنے کی ذمہ داری میرے بڑے بھائی بہت احسن طریقے سے نبھاتے تھے لیکن اج ہر کمرے میں ٹیلی ویژن پھر بھی بچوں کی لڑ ائی ختم نہیں ہوتی ایک کہتا ہے میں نے یہ نہیں دیکھنا تو دوسرا کہتا ہے مجھے یہ نہیں دیکھنا. مجھے سکول جاتے ہوئے لنچ میں زیادہ تر انڈہ پراٹھا دیا جاتا تھا اور کبھی کبھی اچار اور اج کے بچے فرائی , برگر, پیزا, اور پتہ نہیں کیا کیا لوازمات اور پھر بھی منہ ٹیڑھا کا ٹیڑھا مطلب نا خوش.

یہ سب تبدیلیاں اتنی ترقی پانے کے باوجود انسان اتنا نا شکرا اتنا نا خوش کیوں ؟ کیا یہ سب کچھ تیرا حق تھا ہر گز نہیں بلکہ
 یہ سب آسانیاں اتنی ترقی اللہ کا احسان ہے فقط اللہ کا احسان . لیکن اج کا انسان پھر بھی اتنا نا شکرا کیوں ہے.
ترجمہ : ”کہہ دیجئے کہ وہی اللہ ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے کان، آنکھیں اور دل بنائے ۔

(جاری ہے)

تم بہت ہی کم شکر گزاری کرتے ہو“۔(الملک 23)
ترجمہ: "اسی نے تمہیں تمہاری منہ مانگی کل چیزوں میں سے دے رکھا ہے  اگر تم اللہ کے احسان گننا چاہو تو انہیں پورے گن بھی نہیں سکتے  یقیناً انسان بڑا ہی بے انصاف اور ناشکرا ہے" ۔ (سورہ ابراہیم 34)
 ترقی تو دور اگر انسان اپنے جسم پر نظر مارے تو کیا یہ اللہ کا احسان نہیں کہ اپ چل سکتے ہو اپ دیکھ سکتے ہو اپ بول سکتے ہو اپ سونگھ سکتے ہو اپ اچھے برے کی تمیز کر سکتے ہو دنیا میں کتنے ہی اسے لوگ ہیں جو چل نہیں سکتے , دیکھ نہیں سکتے, بول نہیں سکتے, اور کتنے ہی اسے ہیں جو اچھے برے کی تمیز نہیں کر سکتے وہ پاگلوں والی ذندگی گزار رہے ہیں کیا تو ان سب سے بہتر ہے ہر گز نہیں یہ میرے اللہ کا احسان اور  فضل ہے ورنہ ہم میں اسی کوی خاص بات نہیں.

اتنے کرم اتنے احسانات کے باوجود انسان اپنے اللہ کا شکر گزار کیوں نہیں بنتا؟ ہر وقت شکوہ ہر وقت مایوسی کیوں ؟ پھر اس کریم ذات سے سر کشی کیوں ؟ پھر اس کے پیدا کیے ہوئے بندوں پر ظلم کیوں ؟ پھر اس ذات سے وعدہ خلافی کیوں ؟ اللہ کی نعمتیں کھا کھا کر دانت ٹوٹ گئے مگرزبان اس کی ناشکری ہی رہی اخر کیوں ؟ پھر رب کی بنائ ہوئی زمین پر غریب کے لئے جگہ تنگ کیوں ؟
کسی نے حکیم بو علی سینا سے پوچھا؟ "آپ کے دن کیسے گزرہے ہیں " جواب دیا"گناہ گار ہونے کے باوجود اللہ کی نعمتیں اس قدر مجھ پر برس رہی ہیں کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کس بات پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کروں نعمتوں کی کثرت پر یا اپنے گناہوں کی پردا داری پرـ"اگر ہم اللہ کا شکر ادا کریں گے تو ہمیں اور ذیادہ نعمتوں سے نوازا جائیگا لیکن اگر ہم ناشکری ادا کریں گے جو کہ ہماری قوم کا شیوہ بن چکا ہے۔ تو اللہ کی پکڑ بڑی سخت ہے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتیں بھی وآپس لے لیں گے۔
 قرآن میں ارشاد ہے  ترجمہ : "اگر تم شکر کرو گے تو میں تم کو اور ذیادہ دونگا اور اگر ناشکری کرو گے تو میرا عزاب بڑا سخت ہے"(سورہ ابراہیم  7)
ہمیں اللہ تعالیٰ کے عزاب سے ہر وقت ڈرنا چاہئے۔اور ہر وقت شکر ادا کرنا چاہیے۔ شکر ایک مستقل عبادت ہے ان کو دیکھیں جن کے پاس وہ چیزیں نہیں شکر کا الٹ کفر ہے ایک شخص اگر شکر نہیں کر رہا تو وہ کفر کر رہا ہے۔
 ہمیں چاہیے کہ ہم ہر حالت میں اللہ کا شکر ادا کریں، اٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے، چلتے پھرتے، کھاتے پیتے گویا ہر سانس پر اللہ کا شکر ادا کریں تاکہ اس کی نعمتیں اور ذیادہ ہم پر برسیں.

ہم اور میں اکثر شکرگذاری کو محض زبانی معاملہ سمجھتے ہیں کہ صرف الحمد للہ، یا اللہ تیرا شکر ہے وغیرہ کہہ کر سمجھ لیتے ہیں کہ شکر ادا ہوگیا۔ عین ممکن ہے کہ ہم زبان سے خدا کا شکر کر رہے ہوں اور خدا کے ہاں ہمارا نام ناشکروں میں لکھا ہوا ہو۔ اگر ایسا ہو تو ہم زندگی کے آدھے امتحان میں ناکام ہوگئے۔ تو آہیں اج سے ذندگی گزارنے کا طریقہ بدلتے ہیں اس میں شکر گزاری کا اضافہ کرتے ہیں اور وہ بھی دل سے زبانی نہیں.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :