" خدارا احتیاط کیجئے"

بدھ 13 اکتوبر 2021

Arbaz Raza

ارباز رضا

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ دور میں سوشل میڈیا نے جہاں تک ہمیں فوائد مہیا کیے ہیں ساتھ ہی اس کے نقصانات بھی موجود ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سوشل میڈیا کی وجہ سے پیدا ہونے والی برائیاں دن بدن بڑھتی جا رہی ہیں۔ پہلے دور میں ایک بات یہ ہوتی تھی کہ لوگ سامنے بیٹھے ہوئے آدمی کے ساتھ کوئی ایسی بات نہیں کرتے تھے جو کہ اخلاقاً پستی کا باعث بنے مگر آج چونکہ سامنے والا کوسوں دور ہوتا ہے اس لیے لوگ ایسی ایسی باتیں کمنٹس اور پوسٹوں کے ذریعے کرتے ہیں جو کہ وہ گھر والوں میں بیٹھ کر نہیں کر سکتے۔

مجھے حیرانگی ہوتی ہے کہ یہ لوگ کسی سے نہیں ڈرتے کیا ان کا کوئی بڑا نہیں ہے؟ انہیں روک ٹوک کرنے والا کوئی نہیں؟ میرا مقصد یہ ہے کہ آج جو لوگ ایک دوسرے کے خلاف اتنے غلیظ کمنٹس یا پھر پوسٹنگ کرتے ہیں انہیں اس بات کا ڈر نہیں ہوتا کہ شاید ان کی فیملی کا کوئی بندہ انہیں دیکھ رہا ہو۔

(جاری ہے)

مجھے آصف چودھری کی بات یاد آ رہی ہے انہوں نے کہا تھا کہ آپ سوشل کا استعمال باہر جا کر کریں یا گھر کے کسی کونے میں مگر یہ بات ذہن نشین رہے کہ آپ جو بھی کر رہے ہیں وہ آپ اپنے شہر کے مرکزی چوک میں ہجوم کے سامنے کر رہے ہیں۔


ہر ایپ کچھ نہ کچھ اپنے فائدے یا پھر لوگوں کے لیے اپنے سافٹویئر میں کچھ تبدیلیاں کرتی ہے۔ اس بات سے ہر شخص آگاہ ہے کہ ٹوئٹر نے کچھ عرصہ پہلے Spaces کا آپشن دیا ہے۔ شروع شروع میں بذات خود میں بڑا خوش ہوا کیونکہ اس پر مختلف چینلز کے جرنسلٹ آ کر مختلف عنوانات پر گفت و شنید کرتے تھے۔ اس سے مجھے بہت فاہدہ ہوا کیونکہ ایک تو حالات حاضرہ کے ہر مسئلہ کا ہر طرح سے پوائنٹ آف ویو مل جاتا دوسرا ہم بھی کچھ سوال کر دیتے اور ساتھ بیان بھی۔

مگر آہستہ آہستہ وہی ہوا جس کا ڈر تھا لوگوں نے اس آپشن کو بھی غلط استعمال کیا۔ آج کسی Space پر ذاتی مسائل ڈسکس ہو رہےہیں تو کہیں پر سیاسی غلامی ہو رہی ہے۔ اس لیے اب وہ بھی درد سر بن چکا ہے۔
آپ اندازہ لگائیں ہم وہ لوگ ہیں جن کو ابھی تک سوشل میڈیا استعمال کرنے کا طریقہ تک نہیں آیا۔ ہم لوگ دن بدن اخلاقی پستی کی جانب جا رہے ہیں ہمارا نہ ہی کوئی کام ہے اور نہ ہی کاج۔

اگر ہے تو کسی نہ کسی سیاسی پارٹی پر پرسنل اٹیک کرنا۔ میں ذاتی طور پر عمران خان صاحب کو پسند کرتا ہوں مسلم لیگ نون اور پی پی پی سے اختلاف ہے مگر ان کے لیڈران پر کبھی ذاتی حملے نہیں کیے۔ کیونکہ میں جانتا ہوں کہ جو لوگ آج عمران خان کے ساتھ ہیں وہ کل کسی دوسرے کے ساتھ ہوں گے۔ جوکہ الیکشن سے پانچ چھ ماہ پہلے پارٹی چھوڑ دیں گےیا پھر اگر تھوڑی غیرت باقی ہوہی تو آزاد الیکشن لڑ کر دوبارہ منتخب حکومت کا حصہ بن جاہیں گے۔


دراصل ہمیں چاہیے کہ اپنی آواز کو مظلوم کے لیے استعمال کریں نہ کہ قاتل کے فائدے کے لیے۔ ہمیں صبر و تحمل سے دوسرے کی بات کو سننا چاہئے اور جہاں تک ہو سکے ادب و تعظیم کے دائرے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ دشمن باہر بیٹھ کر کس طرح ہمیں توڑنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس لیے خدارا ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے اور مل کر اس وطن کے فائدے کے لیے کان کرنا چاہیے۔ یاد رہے لوگ ہماری باتوں سے ہی ہماری شخصیت کے معیار کو پرکھ لیتے ہیں اس لیے خدارا  احتیاط کیجئے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :