"ہم ایک ہیں"

جمعرات 13 جنوری 2022

Arbaz Raza

ارباز رضا

کہا جا سکتا ہے کہ ہم آگے منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔ یہ بھی چلیں درست ہو گا کہ ہم دنیا میں دوسری تمام اقوام سے صرف معاشی ترقی میں پیچھے ہیں باقی اخلاقیات،عدل و انصاف اور حب الوطنی میں آگے ہیں۔ مگر اس بات کو بھی آپ درست مان لیں تو بہتر ہوگا کہ آپ پوری دنیا میں اسلام کے جھنڈے گاڑنے کا تو سوچ رہے ہیں مگر اس اسلام پر 10 فیصد بھی عمل نہیں کر رہے کیونکہ اگر ہم کرتے تو یہ حالات نہ ہوتے جو کہ پوری دنیا ہمارے دیکھ رہی ہے۔

دن بدن آپ تباہی و بربادی میں دبے جا رہے ہیں۔ کہیں آپ مذہب کے نام پر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دوسرے لوگوں کے خون کی ہولی کھیلتے ہیں تو کہیں ہر روز عورتوں حتیٰ کہ کمسن پچوں کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ آج کل تو زیادتی کے کیسز معمول بن چکے ہیں ہر دن کئی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں مگر عوام صرف سوشل میڈیا پر انہیں کو موضوع بحث بناتے ہیں۔

(جاری ہے)

یہ بات سچ ہے کہ جو ہمیں کڑوی بات کہہ دے ہم اسے غدار وطن کے القابات سے بھی نواز دیتے ہیں مگر چھوڑیئے۔


اگر ہم مری میں ہونے والے واقعے پر نظر ڈالیں تو ہمارا سر باعثِ قوم شرم سے جھک جائے۔ آج بھی ہم کتنی پستی میں ہیں اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستانی بڑے مہمان نواز ہیں مگر دوسری اقوام کو اس بات کا پتا آپ کے انہیں سانحات سے لگ جاتا ہے کیونکہ جب قوم پر مشکل وقت آتا ہے ہم اپنی جیب بھرنے اور آنے والی سات نسلوں کے مستقبل کا سوچنے لگ جاتے ہیں۔

جب لوگوں کو سردی سے رہنے کی جگہ نہیں مل رہی تھی اس وقت ہوٹل مالکان نے کرایہ چار سے پانچ گنا کر دیا کیونکہ یہی تو کماہی کا وقت تھا۔ اگر دوسرے مقامی لوگوں کی بات کی جائے تو انہوں نے بھی گاڑیوں کو دھکا لگانے کے لیے پیسوں کا تقاضا کر دیا۔ یہ ہے ہمارے ایک ہونے کی سب سے بڑی دلیل۔
 اُدھر سوشل میڈیا پر بھی بڑے بڑے نام نہاد حکومتی غلام جو کہ کئی سالوں سے غلام بن غلام چلے آتے ہیں انہوں نے بیانات دیئے کہ یہ لوگ کیا لینے گئے تھے مری؟ یاد رہے یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے وزراء کے دیے گئے بیانات کو جو کہ سیاحت کے مطلق انہوں نے دیے تھے کو پوری دنیا میں پھیلا رہے تھے کہ دیکھو!  مری میں ایک لاکھ سے زیادہ گاڑیاں داخل ہو چکی ہیں یہ نیا پاکستان ہے۔

بزدار کی تو بات ہی نہ کریے بہتر رہے گا۔  وہ خان صاحب بھی کہیں گم تھے جو ساؤتھ کوریا میں کشتی ڈوب جانے پر وزیراعظم کے استعفیٰ کی باتیں کرتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے اپوزیشن نے بھی اس واقعے پر سیاست چمکانے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا۔ پوری قوم جانتی ہے کہ سیاستدان چاہے وہ حکومت سے ہوں یا اپوزیشن سے سب کے مری میں بڑے بڑے بنگلے ہیں مگر ان کے لیے یہ بڑے خسارے کی بات تھی کہ ایک دو دن ان لوگوں کو رہاہش کی آفر دیتے اور اپنے سچے لیڈر اور حب الوطن ہونے کا ثبوت دیتے۔


خدارا ایسے لوگوں کو پہچانیں اور انہیں سیاست کے میدان سے دور پھینکیں جو صرف و صرف اپنے فائدے کے لیے کام کرتے ہیں جن کے لئے ایک پاکستانی کی زندگی کوئی معنی نہیں رکھتی۔ خیر انہیں کیا انہیں قوم ہی ایسی ملی ہے  جو ایسے سانحات کو معمول سمجھ کر بھول جاتے ہیں کیونکہ کسی نہ کسی حد تک ہم سب زمہ دار   ہوتے ہیں۔لیکن  اس بات میں کوئی شک نہیں کہ سیاستدان اور ہم  ایک ہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :