"بدلنا تو پڑے گا ہی"

جمعہ 10 ستمبر 2021

Arbaz Raza

ارباز رضا

اس وقت اگر دیکھا جائے تو ہمارے چھوٹے سے چھوٹے بچے کے ذہن میں بھی یہ بات بٹھا کر رکھ دی گئی ہے کہ مغربی اقوام خصوصاً ان کے لیڈرز جو کہ خود کو دنیا پر مزید اوپر کرنے اور مسلمانوں کو دن بدن نیچا کرنے میں لگے ہوئے ہیں ہمارے سخت مخالف ہیں اور روز بروز سازشوں میں مصروف عمل ہیں۔ خدانخواستہ میں اس بات کا انکاری نہیں ہوں اور نہ ہی یہ سمجھتا ہوں کہ وہ لوگ ٹھیک کر رہے ہیں۔


اس وقت بات اس انداز سے بچوں کے آگے پیش کرنی چاہیے کہ دیکھو! جب تک ہمارے پاس طاقت و اقتدار، علم اور مستقبل کی بہترین پلاننگ رہی تب تک تو ہم نے بھی کھل کر ان لوگوں کی دھلائی کی۔ اس بات میں شک نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ادوار کے علاوہ بھی چند ادوار میں بہترین انداز سے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا گیا مگر بات زیادہ تر بادشاہوں کے ادوار پر ہو رہی ہے۔

(جاری ہے)

جس بادشاہ کا جتنا بس چلا اس نے اتنا ہی خود کا یعنی مسلمانوں کا اور غیر مسلموں کا نقصان کیا۔ خود خزانے سمیٹے اور غریبوں کو دن بدن قریب تر کر دیا گیا۔ تمام آسائشیں خود کے لیے حاصل کی اگر عوام کو دیا بھی تو ناتلافی نقصان۔ خیراس بات کا خلاصہ میں چند انہی جملوں میں کرنا چاہوں گا کہ جب حقیقی اسلام جو کہ خدا اور اس کے رسول کا تھا درباری اسلام میں تبدیل ہوا تب ہی ایسےمسائل نے جنم لیا جن کی وجہ سے ہم دن بدن بستی میں چلے گئے۔


یہ بات تاریخ کے اوراق میں قلم بند ہے کہ جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کے چمٹے سے تشبیہ دی جاتی تھیں اور انہیں بدروحوں کو نکالنے کے لیے سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی۔ اس وقت عراق میں مسلمان جدید کیمسٹری اور ادویات کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ جہاں ابن سینا ایسی کتاب لکھ رہا تھا جسے اکیسویں صدی میں پڑھا جانا تھا۔ دوسری جانب جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے آگے چل کر "بائبل" کا خطاب ملنا تھا۔

پھر آہستہ آہستہ ان درباری بادشاہوں کے اسلام کی وجہ سے جس میں صرف اور صرف ظلم و ستم کو آگے کر کے دکھایا گیا ساتھ ہی ان ادوار میں وہ بکے ہوئے مولوی جنہوں نے اسلام اور بادشاہت کے نظام کو باہم ملا کر رکھ دیا دن بدن مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے۔ ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک جو کہ ظاہری طور پر صرف 63 برس تھی اس میں بھی صرف 23 سال کے عرصے میں اسلام بےحد پھیلا وہ بھی عمل اور اخلاق سے۔

مگر اس وقت سے اب تک اگر اسلام پھیلا بھی ہے تو کس ratio سے؟
 خیر اگر ہم اپنے بچوں کو بغیر کسی کی پرواہ کیے یہی بتا دیں بیٹا جب تک ہمارے پاس قوت و طاقت علم کی بدولت تھی ہم نے ترقی کی اور دوسری اقوام کو اسلام کی جانب اخلاقی طور پر دعوت دینے کی بجائے ہم نے ڈنڈے کے زور پر کام کیا۔ یہاں میں بادشاہوں کے اسلام کے بات کر رہا ہوں نہ کہ اولیائے کرام کے پھیلائے گئے اسلام کی۔

مگر جب ہم سے یہی سب چیزیں ختم ہوئی جب ہم نے بھی بو علی سینا اور جابر بن حیان کے دور کے یورپی لوگوں کے جیسے کام شروع کر دیے یعنی مختلف بیماریوں کو ہم نے تعویذ و جادو اور دم و درود پر رکھ لیا بنا ان کا علاج کیے اور وہ ہمارے بزرگوں والا کام( یعنی سائنس کی مدد سے علاج) کرنے لگے تو انہوں نے مزید دریافتیں کی اور سائنس کو ترقی دی۔ تب انہوں نے نہ ہی دن دیکھا نہ رات، نہ ہی عراق و شام اور نہ ہی افغانستان و پاکستان انہوں نے ہمیں ہر لحاظ سے پستی کی جانب دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی اور کیا کہنے ہم نے بھی جانب پستی ہی جانا پسند فرمایا۔

اس لیے ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارا کوئی حال نہیں ہے ہم ظاہری طور پر بدلنا چاہتے ہیں مگر اندرونی طور پر پستی کو پسند کیے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنا تو دور کی بات ہم نکلنے کا سوچتے تک نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم مار کھا رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے۔ ہماری دنیا میں کہیں عزت نہیں ہو گی چاہے وہ ہمیں اپنے مقاصد کی خاطر کھلائیں یا پھر دہشت گرد کہ کر مار دیں ان کی مرضی ہے۔ اس میں ہم بےبس ہیں۔ اس لیے جب تک ہم نہیں بدلیں گے جب تک تعلیمی میدان میں آگے نہیں چلے جاتے تب تک ہر ملک، شہر اور گلی میں مسلمان ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :