
"بدلنا تو پڑے گا ہی"
جمعہ 10 ستمبر 2021

ارباز رضا
اس وقت بات اس انداز سے بچوں کے آگے پیش کرنی چاہیے کہ دیکھو! جب تک ہمارے پاس طاقت و اقتدار، علم اور مستقبل کی بہترین پلاننگ رہی تب تک تو ہم نے بھی کھل کر ان لوگوں کی دھلائی کی۔ اس بات میں شک نہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے ادوار کے علاوہ بھی چند ادوار میں بہترین انداز سے غیر مسلموں کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا گیا مگر بات زیادہ تر بادشاہوں کے ادوار پر ہو رہی ہے۔
(جاری ہے)
یہ بات تاریخ کے اوراق میں قلم بند ہے کہ جب یورپ میں سر درد کو بدروحوں کے چمٹے سے تشبیہ دی جاتی تھیں اور انہیں بدروحوں کو نکالنے کے لیے سر میں کیلیں ٹھونکیں جاتی تھی۔ اس وقت عراق میں مسلمان جدید کیمسٹری اور ادویات کی بنیاد رکھ رہے تھے۔ جہاں ابن سینا ایسی کتاب لکھ رہا تھا جسے اکیسویں صدی میں پڑھا جانا تھا۔ دوسری جانب جابر بن حیان وہ کتاب لکھ رہا تھا جسے آگے چل کر "بائبل" کا خطاب ملنا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ ان درباری بادشاہوں کے اسلام کی وجہ سے جس میں صرف اور صرف ظلم و ستم کو آگے کر کے دکھایا گیا ساتھ ہی ان ادوار میں وہ بکے ہوئے مولوی جنہوں نے اسلام اور بادشاہت کے نظام کو باہم ملا کر رکھ دیا دن بدن مسلمانوں کے زوال کا باعث بنے۔ ایک بات میں اکثر سوچتا ہوں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک جو کہ ظاہری طور پر صرف 63 برس تھی اس میں بھی صرف 23 سال کے عرصے میں اسلام بےحد پھیلا وہ بھی عمل اور اخلاق سے۔ مگر اس وقت سے اب تک اگر اسلام پھیلا بھی ہے تو کس ratio سے؟
خیر اگر ہم اپنے بچوں کو بغیر کسی کی پرواہ کیے یہی بتا دیں بیٹا جب تک ہمارے پاس قوت و طاقت علم کی بدولت تھی ہم نے ترقی کی اور دوسری اقوام کو اسلام کی جانب اخلاقی طور پر دعوت دینے کی بجائے ہم نے ڈنڈے کے زور پر کام کیا۔ یہاں میں بادشاہوں کے اسلام کے بات کر رہا ہوں نہ کہ اولیائے کرام کے پھیلائے گئے اسلام کی۔ مگر جب ہم سے یہی سب چیزیں ختم ہوئی جب ہم نے بھی بو علی سینا اور جابر بن حیان کے دور کے یورپی لوگوں کے جیسے کام شروع کر دیے یعنی مختلف بیماریوں کو ہم نے تعویذ و جادو اور دم و درود پر رکھ لیا بنا ان کا علاج کیے اور وہ ہمارے بزرگوں والا کام( یعنی سائنس کی مدد سے علاج) کرنے لگے تو انہوں نے مزید دریافتیں کی اور سائنس کو ترقی دی۔ تب انہوں نے نہ ہی دن دیکھا نہ رات، نہ ہی عراق و شام اور نہ ہی افغانستان و پاکستان انہوں نے ہمیں ہر لحاظ سے پستی کی جانب دھکیلنے کی بھرپور کوشش کی اور کیا کہنے ہم نے بھی جانب پستی ہی جانا پسند فرمایا۔ اس لیے ترقی یافتہ دور میں بھی ہمارا کوئی حال نہیں ہے ہم ظاہری طور پر بدلنا چاہتے ہیں مگر اندرونی طور پر پستی کو پسند کیے ہوئے ہیں اور اس سے نکلنا تو دور کی بات ہم نکلنے کا سوچتے تک نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے ہم مار کھا رہے ہیں اور کھاتے رہیں گے۔ ہماری دنیا میں کہیں عزت نہیں ہو گی چاہے وہ ہمیں اپنے مقاصد کی خاطر کھلائیں یا پھر دہشت گرد کہ کر مار دیں ان کی مرضی ہے۔ اس میں ہم بےبس ہیں۔ اس لیے جب تک ہم نہیں بدلیں گے جب تک تعلیمی میدان میں آگے نہیں چلے جاتے تب تک ہر ملک، شہر اور گلی میں مسلمان ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
ارباز رضا کے کالمز
-
"ہم ایک ہیں"
جمعرات 13 جنوری 2022
-
خدارا قوم پر رحم کیجئے
جمعہ 22 اکتوبر 2021
-
" خدارا احتیاط کیجئے"
بدھ 13 اکتوبر 2021
-
"آہ! محسن پاکستان چلے گئے"
منگل 12 اکتوبر 2021
-
"خدارا گھبرانے دیں"
ہفتہ 2 اکتوبر 2021
-
"دورہ نیوزی لینڈ"
اتوار 19 ستمبر 2021
-
"بدلنا تو پڑے گا ہی"
جمعہ 10 ستمبر 2021
-
"ہم شاید سب کچھ بھول چکے ہیں"
جمعہ 23 جولائی 2021
ارباز رضا کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.