خدارا قوم پر رحم کیجئے

جمعہ 22 اکتوبر 2021

Arbaz Raza

ارباز رضا

ہم اب بھی اسی طرح آگے بڑھ رہے  ہیں جس طرح ہم پہلے تھے ۔چاہے دنیا ترقی کرے یا نہ کرے ہمارے ملک کا تعلیمی معیار وہیں کا وہیں رہنا ہے۔ ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ یورپی ممالک تو یورپی ہی رہے جنوبی ایشیائی ممالک دن بدن کتنی ترقی کرتے جا رہے ہیں۔ اگر میں اپنے ملک کی بات کرو تو ہمارے ہاں آج بھی بچہ پانچ چھ سال کی عمر میں سکول جانا شروع کرتا ہے یہ بات اور ہے کہ اس کے والدین اس کی عمر برتھ ڈے سرٹیفکیٹ پر مختلف درج کروا دیتے ہیں۔

اس کے بعد اگر دیکھا جائے تو ہمارے ہاں آج جتنے  بھی سرکاری پرائمری سکول ہیں ان میں تعلیم صرف برائے نام ہی چل رہی ہے۔ ادھر ایک تو  بچوں کو پڑھایا نہیں جاتا اس کے علاوہ سکول میں بھی مقامی زبانیں بولی جاتی ہیں ۔اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ  مثلاً ہمارے لیہ جیسے شہر میں بھی طالب علم تقریبا میٹرک میں آ کر اردو بولنا سیکھتا ہے ۔

(جاری ہے)

ان سکولوں کی خستہ حالی اور غیر معیاری تعلیم کا  سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وہ سرکاری استاد بھی اپنے بچوں کو ان سکولوں میں داخل نہیں کرواتے۔


تھوڑا سا آگے چلیں تو آپ کو ششم سے دہم تک کی تعلیم بھی تقریباً  اسی طرح کی نظر آئے گی۔ وہاں بھی نہم اور دہم کے بورڈز میں نمبر لینے کے لیے طالب علموں کو وہی پرانے پیپر رٹواہےجاتے ہیں تاکہ بچہ کم از کم فیل  ہونے سے تو بچ جائے۔ اساتذہ کو اس کا قطعاً ڈر نہیں کہ میٹرک کے بعد اس کی  پڑھائی رک جائے یا پھر وہ وہاں نہ پہنچ سکے جہاں تک پرواز کی آرزو رکھتا ہے۔

اگر اکیڈمیوں کی بات کی جائے جو نہ تو ٹیکس دیتے ہیں اور نہ ہی تمام طالب علموں پر مکمل دھیان۔ہمارے سرکاری کالجز تو براہِ نام رہ گئے ہیں جہاں نہ ہی باقاعدہ کلاسز ہوتی ہیں اور نہ ہی طلباء پر خصوصی توجہ۔اس لیے جو کما رہی ہیں وہ اکیڈمیز ہیں۔ جن میں وہی اساتذہ پڑھاتے ہیں جو کالجز میں حاضر سروس ہوتے ہیں۔ اب آگے چل کر دیکھیں تو اکیڈمیز کا  حال بھی بےحد خراب ہے۔

ہمارے شہر لیہ کی اگر آپ مشہور و معروف اکیڈمیز جو کہ میٹرک کی ہو یا انٹر کی سب بزنس پوائنٹس میں تبدیل ہو کر رہ گئی ہیں ۔ان میں بھی  صرف پندرہ بیس  لڑکوں اور لڑکیوں کو اچھی طرح سے پڑھایا جاتا ہے جنہوں نے رزلٹ دینا ہوتا ہے ۔ان طالب علموں کے پیپر زبھی خود پروفیسر چیک کرتے ہیں اور ان کو اکیڈمیوں سے ہٹ کر تب بھی کلاس دی جاتی ہے جب دوسرے طالب علموں کو کرونا وبا کے سبب پوری فیسیں لے کر دوبارہ گھر بھیج دیا جاتا ہے ۔


جس اکیڈمی میں گذشتہ دو برس میں پڑھتا رہا وہاں کا سب سے بڑا مسئلہ سیکشنز کا تھا۔ جس وقت میں نے وہاں جاکر داخلہ لیا  میرے نویں جماعت میں 434 نمبر آہےتھے کیونکہ دسویں کا رزلٹ تب تک نہیں آیا تھا۔ جب میں وہاں گیا  تو نمبر دیکھ کر مجھے پہلے سیکشن کا کہا گیا مگر میری بدنصیبی ہی سمجھیے سیکشن فل تھا اور مجھے دوسرے سیشن میں ہی جانا پڑا ۔دوسرے سیکشن اور پہلے کے درمیان زمین آسمان کا فرق تھا حالانکہ پہلے  سیکشن والوں کی نسبت  دوسرے سیکشن والے زیادہ فیس ادا کر کے بیٹھے تھے۔

  وہاں کبھی تو  پیپرز لیٹ ہوتے تو کبھی ہمیں مفت کے بکرے سمجھ کر جب جی چاہا بھی کیڈمی میں بلا لیتے۔ ہمارا آنے کا اور نہ ہی اکیڈمی سے جانے کا وقت ایک جیسا ہوتا۔ ہماری جماعت کی آخرکار حالت یہ ہوئی کہ جب اکیڈمی کے سینڈ اپ شروع ہونے لگے تو خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہماری فزکس کی کتاب کے تقریبا 2 چیپٹرز  رہ گئے اور ان کو پڑھنے کا خواب پھر کبھی  پورا نہ ہو سکا۔

پھر کرونا وبا کے پیش نظر ہماری اکیڈمی بند ہوئی اور آخر کار ہمیں حکومت نے گیارویں میں پرموٹ کر دیا گیا ۔بات شروع ہوئی بارہویں سے کرونا کا موسم تھمنے لگا پھر سے تازہ ہوا کے جھونکے شروع ہوئے ۔نئے نئے سرے سے تعلیمی اداروں میں رونقیں شروع ہوگئی مگر ہماری زندگی کی رونقیں ویسی کی ویسی رہ گئیں۔ ہم نے بھی سوچ لیا کہ جس بل سے ایک بار ڈنگے ہیں ۔

وہاں دوبارہ نہیں جائیں گے۔ پھر کچھ دوستوں کے کہنے پر دوبارہ اسی کیڈمی کی راہ لی لیکن پھر بھی حساب  وہیں کا وہیں تھا۔  شروع میں چونکہ بہت سے لڑکے دوسری نئی اکیڈمی چلے گئے تو دونوں سیکشنز کو اکٹھا بٹھایا گیا مگر پھر وہی ہوا جس کا ڈر تھا کہ دوسرے سیکشن والے اپنا سامان بند کریں  اور ریل کے دوسرے ڈبے میں چپ چاپ چلے جائیں۔ آپ سے میں اس وقت کے جذبات بیان نہیں کر سکتا ہمارا حال ویسے تھا جیسے ایک  مسافر بزنس کلاس کا ٹکٹ لے کر سوار ہو اور  کسی نہ کسی بہانے اسے عام سیٹ پر بٹھا دیا جائے۔

خیر ہم پھر چلے گئے لیکن ہم نے سوچا یا تو اکیڈمی تبدیل کی جائے گی یا پھر انہیں ہمیں پہلے سے سیکشن میں ہی بھیجنا پڑے گا۔ کچھ  دنوں بعد ہم میں سے تقریبا چار لڑکے دوبارہ پہلے سیکشن میں براجمان ہوئے مگر پھر دوبارہ یہاں نہ تو کچھ اساتذہ نے ہمیں کھلے دل سے قبول کیا اور نہ ہی ہمارے  سیشن کے کچھ عظیم دوستوں نے کیوں کہ انہیں محسوس ہو رہا تھا کہ دوسرے سیکشن کے بچے اگر اس میں شامل ہو جائیں تو شاید وہ ساری آواز جذب کرلیں گے جو استاد کے منہ سے نکل رہی ہوتی ہے۔


اس کے بعد تھوڑا بہت ہم نے بھی پڑھائی پر دھیان دیا کیونکہ اس سیکشن میں مقابلہ سخت تھا پھر خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے پہلے ماہانہ ٹیسٹ قریب آگئے اس سے پہلے چار دن میں چھٹی کا چکا تھا اور اگلے دن ہی جاکر بائیولوجی کا ٹیسٹ دینا تھا ۔میری اس دن طبیعت بھی ناساز تھی تو میں نے صرف معروضی اور مختصر سوالات حل کیے اور گھر کی راہ لی۔ کچھ دنوں بعد جب ٹیسٹ کا رزلٹ آیا تو میں نے بھی بڑا تیر چلایا ہوا تھا ۔

پچاس میں سے  صرف 27 نمبر حاصل کیے۔ اس کے بعد ہم نے پھر بوری بستر باندھا اور دوسرے سیکشن چل دیے کیونکہ صرف ایک ٹیسٹ کی بنیاد پر ہمیں بھیجا گیا۔ میرے ساتھ اس وقت اسی سیکشن کے پانچ بچے اور تھے مگر ان کے جھوٹے عذر قبول کر لیے گئے مگر  میری حاضری دیکھنے کے باوجود دوسرے سیکشن میں بھیجا گیا۔انہیں مسئلہ مجھ سے نہیں بلکہ ان 70 بچوں سے تھا جو دوسرے سیکشن میں تھے۔

ہم کچھ منت سماجت کے بعد پھر سے پہلے سیکشن آئے کیونکہ وہاں میرے دو پسندیدہ استاد جو کہ اردو اور انگریزی پڑھایا کرتے تھے  نے  بہت ساتھ دیا۔  اس کے بعد تو الحمدللہ ہم نے بہترین نمبر حاصل کیے ۔
میری یہ سب بات بتانے کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ اگر آپ ایک جماعت میں سارے کمزور بچوں کو رکھ لیتے ہیں تو مقابلہ خاک ہوگا ۔آپ ان بچوں سے پہلے والوں کے مقابلے میں دگنی فیس وصول کر رہے ہوتے ہیں۔

اگر میرے وہ محترم اساتذہ جو صرف قابل  بچوں پر ہی زیادہ توجہ دیتے ہیں کیا یہ بات بتا سکتے ہیں کہ اگر دوسرے بچوں کی جگہ ان کے اپنے بچے ہوتے وہ کیا کرتے ؟ کیا ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہوتا آپ چاہے جماعت میں کھڑے ہوکر برابری اور انصاف کے لیکچرز دیں یا نہ دیں آپ کے شاگردوں کو سب کچھ نظر آ رہا ہوتا ہے۔ یہ محض آپ اپنی نظر میں تو خود کو چھپا سکتے ہیں مگر ان 70 یا 80 بچوں کی نظر سے نہیں۔


ہمیں بارھویں میں سرمد صاحب پڑھایا کرتے تھے وہ فرماتے  تھے کہ "
دیکھے استاد کو کمزور بچوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے با نسبت ان کے جو لائق ہوں۔"
 آپ کا کمال یہ نہیں کہ اس بچے کو ٪90نمبر دلادیں  جو پچھلے برس میں اسی نسبت سے نمبر لے چکا ہو۔ آپ کا کام کمزور بچوں کو حوصلہ ہمت دینا ہے جو دوسروں سے کم پوزیشن پر آ رہے ہوں۔ ہم نے بڑے بڑے نام نہاد پروفیسرز کو انچارج کے روم تبدیل کرتے دیکھا ہے وجہ یہ ہے کہ اس نے ایسے بچے کو شور کرتے ہوئے تھپڑ مارا جو جماعت میں اول آتا تھا اور ان لڑکوں کو باہر نکلتے دیکھا جن کا پوچھنے والا کوئی نہیں تھا ۔


بات مختصر یہ کہ ان تمام معاملات میں نہ ہی قصور طالب علم کا ہے اور نہ ہی اساتذہ کا۔ قصور ہے تو وہ والدین کا ہے جو چار چار ہزار فیس تو ادا کرتے ہیں مگر اساتذہ سے یہ نہیں پوچھتے کہ ہمارے بچے کو دوسرے سیکشن میں وہ تمام سہولیات کیوں میسر نہیں جو پہلے سیکشن والوں کو ہیں۔کیا آپ لوگ ان سے دوگنا فیس نہیں لیتے اور حکومت کو بھی جو کہ مرکزی ہو یا پھر صوبائی یا پھر ضلعی ان پر خصوصی نگاہ کرم فرمائیں اور ان سے مطالبہ کریں کہ آپ بچوں کو سہولیات برابر دیں۔

  اس کے علاوہ  15 یا 20 ٹاپرز کی بجائے فیل ہو جانے والوں کی تعداد بھی ضرور دکھائیں تاکہ عوام کو آپ کی قابلیت کا  پتہ چلے۔  اب اگر دیکھا جائے تو ایک جماعت میں200 بچے ہوتے ہیں جن میں سے یہ 15 بچوں کا شاندار رزلٹ دیکھاتے ہیں۔
75 بچے تقریباً اوسطاً نمبر لیتے ہیں اور باقی 00 1 فیل جن کا ان سے نہیں پوچھا جاتا ۔ہر بچہ استاد کے پاس ہوتا ہے تو بچے کیوں فیل ہو جاتے ہیں۔

آخر ان سو بچوں کا کس سے پوچھا جائے؟  جنہوں نے دو سال ان کی مہنگی فیس بھی بھری ہوں اور شاندار انداز سے فیل  بھی ہوئے ہو ں۔اس کے علاؤہ رزلٹ میں اکیڈمیز اور کالجز کو گیارہ سو میں سے گیارہ سو نمبر لینے والوں کی تعداد نہیں بلکہ تین پیپر ہونے کے باوجود 600 سے کم نمبر لینے والوں کی تعداد بتانی چاہیے۔ جنہیں یہ  شاندار رزلٹس والی اکیڈمیاں پاس  مر کر بھی پاس نہیں کروا سکیں۔

اگر میری اس تحریر سے کسی استاد کی دل آزاری ہوئی ہو تو میں معافی کا طلب گار ہوں۔ یہ جذبات صرف میرے نہیں بلکہ ہر اس بچے کے ہیں جس نے خود پر یا پھر دوسرے بھائیوں پر یہ فرق ہوتے دیکھے ہیں خدارا  آپ تربیت کرنے والے ہیں ہماری تربیت کریں نہ کہ ہمیں بزنس کرنے کے طور طریقے سے سمجھاہیں کہ کرونا کے دوران اکیڈمی بند ہے، پھر کال آتی ہے کہ بیٹا ! ہم نے دوسری جگہ اکیڈمی  کھول رکھی ہے آئیں اور زیور تعلیم سے آراستہ ہوں۔

دوسرے دن پیسوں کا کہا جاتا ہے اور  پانچویں دن تک اکیڈمی بند۔ بیٹا !کرونا شدید ہے حکومت کی سختی ہے  یا پھر ہماری ساتھ والی اکیڈمی نے جاسوسی کی ہوگی لہٰذا کل سے نہیں آنا۔ ہم ہمیشہ بڑے چوروں کی بات کرتے ہیں آخر کار ان چھوٹے نامور چوروں کو کون پکڑے گا جو ہزاروں بچوں کے مستقبل سے کھیل رہے ہوتے ہیں خدارا قوم پر رحم کیجئے صحیح معنوں میں قوم کی خدمت کیجئے۔ اگر آپ اچھی طرح سے تربیت نہیں کریں گے تو کون کرے گا۔ آپ ہی قوم کے معمار ہیں اپنے مرتبے کے مطابق کام کریں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :