"آہ! محسن پاکستان چلے گئے"

منگل 12 اکتوبر 2021

Arbaz Raza

ارباز رضا

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہم نے ہمیشہ اپنے محسنوں پر مظالم ڈھائے۔ وہ لوگ ہمارے لئے اپنا سب کچھ چھوڑ کر پاکستان آئے اس کے لئے دن رات کام کیا ہم نے ان کو آخر میں صلہ دغا اور منافقت کی صورت میں دیا۔ اگر دیکھا جائے تو ہم سب سے بڑا منافق کوئی نہیں ہے۔ خدا بہتر جانتا ہے ہماری عادات میں یہ بات شامل ہو چکی ہے کہ ہم نے ہمیشہ ہر اس شخص کی عزت کرنی ہے جو اس دنیا سے چل بسے۔

اس بات کا تو ہم سے پوچھا ہی نہ جائے کہ وہ بندہ اپنی حیات کیسے گزار رہا تھا؟ اس نے وقت پر کھانا کھایا یا نہیں؟ اس کی فیملی کنڈیشن کیسی تھی؟
اس بات سے بھی ہم آنکھیں نہیں چرا سکتے جب فواد چودھری جو کہ خود ہر الیکشن میں پارٹیاں بدلتا ہے۔ اس نے 2011 اور 2012 میں اپنے ٹوئٹس کے ذریعے محسن پاکستان کو کیا کہا؟ ہم اس وقت کہاں تھے جب پی ٹی وی کی تقریب کے دوران شیخ رشید صاحب نے ڈاکٹر صاحب کو کہا کہ پیچھے نشست پر چلے جائیں۔

(جاری ہے)

یہ نشستیں وزراء کے لیے مختص ہیں؟ آخر ہم نے اس وقت آواز کیوں نہ اٹھائی؟ اس وقت بھی ہم خاموش رہے جب چند بکے ہوئے صحافی عبدالقدیر خان صاحب کو بھونکتے رہے؟ جب کسی نے غداری کا سرٹیفیکیٹ دیا تو کسی نے کہا کہ ان کے باہر ممالک بہت بڑے اساسے ہیں اسکے علاوہ جب پرویز مشرف نے پوری دنیا کے سامنے ڈاکٹر صاحب کو ٹی وی پر معافی منگوا کر زلیل و رسوا کیا تب بھی ہم خاموش رہے۔


مجھے کل پھر ایک بات یاد آئی جب عمر شریف صاحب بیمار تھے سوائے وسیم بادامی اور چند صحافیوں کے کتنوں نے ان کی صحت کے بارے آواز اٹھائی اور حکومت وقت سے باہر جانے کے لیے درخواست کی۔ جب وہ اسپتال میں تھے کتنے وزراء اور دوسرے سیاستدانوں نے یہ زحمت کی کہ وہاں جاکر ان کا حال دریافت کر لیا جائے؟ خود وزیراعظم عمران خان صاحب نے بھی ایک فون کال تک نہیں کی۔

جب عمران خان کو عمر شریف کی ضرورت پڑی تو انہوں نے شوکت خانم ہسپتال کے چندے کے لیے ہر جگہ پہلی فرصت میں شرکت کی۔ بالکل یہی ماجرہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے ساتھ پیش آیا جب وہ بیمار تھے تو کتنے وزراء اور سیاستدان ان سے ملنے گئے؟ عمران خان صاحب نے بھی حسب معمول ایک فون کال تک نہیں۔ شاید ہم اپنے محسنوں کو عزت و احترام دینے میں بھی دشمن سے پیچھے ہیں۔

جب انڈیا میں ڈاکٹر عبدالسلام کی وفات ہوئی تو وزیراعظم مودی نے اس کی آخری رسومات میں خود شرکت کی اور کل ہمارے وزیراعظم کو وہاں جانے کی زحمت تک نہ ہوئی۔
جب سے ان کی وفات ہوئی ہے ہمیں اس وقت سے ہمیں وہ بہت یاد آرہے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے پوسٹوں کے انبار لگا دیے۔ تمام القابات جو کہ ہم نے ایٹم بم بنانے کے بعد ان کو دیے تھے ہمیں پھر سے یاد آ گئے۔

اگر ہم میں تھوڑی سی بھی غیرت ہے تو ہم " ایک دن جیو کے ساتھ " والا پروگرام جو کہ سن لیں۔ اس میں دل کی بے بسی اور زخموں سے چور آہوں بھری آواز میں انہوں نے کہا کہ؛
" مجھے زندگی میں ایک بات پر پچھتاوا ہوا وہ یہ کہ میں نے پاکستان کے لیے کام کیا"
خدا جانتا ہے ہم نے ان کے کام کے بدلے میں انہیں ایک فیصد بھی اہمیت نہیں دی۔ہم ان سیاستدانوں کو تو اہمیت دیتے ہیں جو کہ دن رات ہمیں لوٹتے ہیں۔

جو کہ 75 سال سے ہمیں اپنے وعدوں کے سائے میں رکھے ہوئے ہیں۔ جن کا مقصد آل بچاؤ،مال بچاؤ اور کھال بچاؤ ہے۔ جو کہ اپنے مفادات کی خاطر ایک دوسرے سے جھگڑتے ہیں پھر مل جاتے ہیں۔ جن کا چہرہ ٹی وی سکرین پر اور ہوتا ہے اور ایک دوسرے کی زاتی زندگی میں اور۔ مگر ہم ان لوگوں کو اہمیت نہیں دیتے جو وطن عزیز کے لیے اپنا تن،من دھن قربان کر دیتے ہیں۔

ہمیں ان لوگوں کی قدر ان کے مرنے کے بعد ہوتی ہے۔ جب ان کی وہ آنکھیں بند ہو جاتی ہیں جو ہمارے بدلنے کی منتظر ہوتی ہیں۔ آج ہم ہی اس چیز کے ذمہدار ہیں کہ ہمارے محسن ہمیشہ ہم سے ناراض گہے۔ چاہے وہ قائد اعظم کی ایمبولینس کا واقعہ ہو یا ڈاکٹر عبدالقدیر احمد خان کی نظر بندی کا ہم زمہ دار ہیں۔ آج جو ہمارے پاس دشمن کو آنکھیں دکھانے کی قوت و طاقت ہے۔

وہ صرف اسی مرد مجاہد کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ہماری جان کو محفوظ بنایا مگر آج وہ ہم میں نہیں رہے۔ہم ان کے یہ احسان تاقیامت نہیں بھلا سکیں گے۔ ہمیں یہ بات سمجھ آ جانی چاہئے کہ چار ہزار روپے پنشن لینے والا ہمارا محسن ہے نہ کہ لاکھوں روپے تنخواہ لینے والا۔ وہ عربوں ڈالرز کے ہتھیار ہمیں دے گیا اور یہ ہمیں پوری زندگی لوٹتے رہے۔ خدا انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ہر پاکستانی کو انہیں کی طرح کا دلی جزبہ لے کر وطن عزیز کی خاطر کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :