
فوٹو سیشن اور سیلفیاں
اتوار 26 مارچ 2017

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
یہ محض مذہب نہیں جو چند عقائد اور رسوم کا نام ہو۔دوسری جانب لادین عناصر کی جانب سے یہ کہنا جاتا ہے کہ پاکستان کا مطالبہ ایک سیکولر ریاست کے لئے تھا۔
اپنے زعم میں یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہیں اور وہ آل انڈیا مسلم لیگ اور قائد اعظم کا کوئی ایک بیان بھی اپنے دعویٰ کے ثبوت میں پیش نہیں کرتے بلکہ قائد اعظم کے بیسیوں پالیسی سازبیانات کو نظر انداز کردیتے ہیں جن میں وہ بار بار قرآن حکیم اور اسوہ حسنہ سے رہنمائی کا اظہار کرتے ہیں اور مملکت کا آئین کتاب عظیم کو قرار دیتے ہیں۔ اگر مذہب وجہ نہ تھی تو ہندوستان تقسیم کیوں ہوا۔ کانگریس تو خود سیکولر ریاست کے قیام کے لئے جدوجہد کررہی تھی تو پھر برصغیر میں دو الگ الگ سیکولر ریاستوں کی ضرورت کیا تھی۔ چوہدری رحمت علی نے کس بنیاد پر مطالبہ پاکستان کیا تھا۔ کیا انہیں آل انڈیا مسلم لیگ کے نام سے اس جماعت کے مقاصد نظر نہیں آتے۔ دراصل ان عناصر کے دل میں نظریہ پاکستان کانٹے کی طرح چبتا ہے اور وہ اسے قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جن کا اصل مسئلہ اسلام ہے اور وہ دین کو اپنی زندگی کا محور نہیں سمجھتے۔ ایسے عناصر کی اصلیت قرآن حکیم کی سورہ بقرہ کی آٹھویں آیت میں کھول کر بیان کردی ہے کہ بہت سے لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان لانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن وہ مومن نہیں ہیں۔پاکستان نعمت خداوندی ہے اور قائد اعظم نے حصول پاکستان کا مقصد سچے اسلامی تصورات کے مطابق ایک جمہوری اور فلاحی مملکت کا قیام قرآن دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ہم عدل و انصاف اور قانون کی حکمرانی قائم کریں گے اورغریب عوام کی معاشی حالت بہتر بنائیں گے۔ لیکن آج پاکستان آج بھی وہ مقآصد پورے نہیں ہوئے۔ جہاں بھی دو پاکستانی ملتے ہیں وہ ملکی حالات کا نوحہ پڑھتے ہیں۔ ہماری کوئی بھی محفل ہو اس میں گھوم پھر کر بات پاکستان کے حالات پر آجاتی ہے اور ان خراب حالات کا ذمہ دار اقتدار میں رہنے والوں کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ سیاستدانوں، بیوروکریسی اور ذاتی مفاد کے لئے ملک کو نظر انداز کرنے والوں کو مجرم گرد انا جاتا ہے۔ لوگ جب پاکستان کے مسائل اور وہاں کے ناگفتہ بہ حالات پر بحث کرتے ہیں تو ضمیر فروش صحافیوں اور اہل قلم کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ قومی وسائل کے ناجائیز استعمال پر افسر شاہی کو برا بھلا کہتے ہیں اور سب سے زیادہ سیاستدانوں خصوصاً جو اقتدار میں رہے ہوں یا اس پربراجمان ہوں ،انہیں کوستے ہیں۔ بیرون ممالک مقیم پاکستانی جن میں دل پاکستان کی محبت اور بھی زیادہ ہوتی ہے، ان کی تنقید اور غصہ اور بھی شدید ہوتا ہے لیکن المیہ اور منافقت کا یہ عالم ہے کہ وہی عوام جب بر سراقتدار یا اقتدارمیں رہنے والوں میں سے کسی بھی شخص کو ملتے ہیں تو پھولے نہیں سماتے اور ان کے ساتھ تصویریں بنا کر اخبارات اور سوشل میڈیا پر تشہیر کرتے ہیں۔ عوام کی یہ کیسی دو رخی روش ہے کہ جن کو ہر وقت اپنی تنقید کا نشانہ بناتے ہیں ، چور، لٹیرے اور نجانے کیا کیا خطابات دیتے ہیں لیکن انہی کا استقبال کرنے ائیر پورٹ پہنچ جاتے ہیں، انہیں ہار ڈالتے ہیں،ان کے ساتھ تصویریں بناتے ہیں، سیلفیاں لیتے ہیں، استقبالیے دیتے ہیں اور فخر سے تشہیر کرتے ہیں۔ یہ کیسا رویہ ہے بقول میر تقی میر
اسی عطار کے لڑکے سے دوا لیتے ہیں
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.