کورونا ویکسین۔ خدشات، اعتراضات اور حقائق

پیر 25 جنوری 2021

Arif Mahmud Kisana

عارف محمود کسانہ

ویکسین گذشتہ صدی کی بہت بڑی ایجاد ہے جس سے کروڑوں زندگیاں موت کے منہ میں جانے سے بچ گئیں۔ پولیو، خسرہ، چکن پاکس، ہیپٹاٹیٹس، ٹیٹنس اور دیگر کئی بیماریوں سے تحفظ مل گیا ہے۔ کورونا وائرس نے ایک سال کے عرصہ میں پوری دنیا کا نظام زندگی معطل کردیا ہے۔ چونکہ وائرس سے پیدا ہونے والی بیماریوں کا کوئی علاج نہیں اس لئے کووڈ19 کے سامنے سب بے بس ہیں۔

مقام شکر ہے کہ اب اس وائرس کی ویکسین تیار ہوچکی ہے اور اسے دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے۔ کووڈ19 کی ویکسین کی دستیابی سے اب انسان اس مہلک اور جان لیوا وائرس سے محفوظ رہ سکیں گے۔ اس اطمینان کے ساتھ ہی المیہ یہ ہے ویکسین کے خلاف مہم بھی شروع ہوچکی ہے۔ کورونا ویکسین کے خلاف پروپوگنڈہ کے تین محاذ ہیں، مذہبی، سماجی اور سائینسی۔

(جاری ہے)

مذہبی محاذ اپنے عقائد کی بنیاد پر سرگرم عمل ہے اور یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ اس ویکسین میں حرام اجزاء موجود ہیں حالانکہ ویکسین بنانے والے اداروں نے واضح کیا ہے کہ اس ویکسین میں کوئی انسانی یا حرام اجزاء شامل نہیں ہیں۔

یہ امر خوش آیند ہے کہ بہت سے علماء نے ویکسین لگوانے کی ترغیب دی ہے اور تمام خدشات کو رد کیا یے۔ سماجی وجوہات اور کم علمی کی وجہ سے بھی دنیا مئں ویکسین کے خلاف پروپوگنڈہ کیا جاتا ہے جو وقت کے ساتھ زائل ہو جائے لیکن سائنسی توجہات اور نام نہاد تحقیق کی بنیاد پر جو پروپوگنڈہ کیا جاتا ہے اس سے بہت سے لوگوں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔

ویکسین کے خلاف مہم ایک امریکی ڈاکٹر کی غلط رپورٹ پر ہوئی کہ اس سے آٹزم کا مرض بڑھتا جاتا ہے۔ وہ رپورٹ شائع ہوئی تو بدقسمتی سے امریکہ میں آٹزم میں کافی اضافہ دیکھنے میں ہوا۔ اس صورت حال میں ویکسین مخالف لابی نے فائدہ اٹھایا اور لوگوں میں ویکسین کے خلاف رد عمل پیدا ہوگیا۔ بعد ازاں یہ ثابت ہوا کہ مذکورہ ڈاکٹر کی رپورٹ نہ صرف گمراہ کن تھی بلکہ اسے ویکسین مخالف لابی نے استعمال کیا تھا۔

یہی وجہ ہے کہ اس ڈاکٹر کا لائسنس بھی منسوخ کردیا گیا لیکن جو بات ایک دفعہ پھیل جائے پھر اس کا تدارک مشکل ہوتا ہے۔
اس امر کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ویکسن بنانے کا طویل اور پیچیدل عمل ہوتا ہے اور پھر اسے ٹیسٹ کیا جاتا ہے بعد ازاں متعلقہ اتھارٹی سائنسی بنیادوں پر اس کا جائزہ لیتی ہے اور پھر ماہرین کی رائے کے بعد استعمال کی اجازت دی جاتی ہے۔

یہ کسی فرد واحد یا ادارے کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ویکسین مرض سے بچاتی ہے لیکن اس مرض کا علاج نہیں کرتی۔
ویکسین دراصل اسی وائرس کے اجزاء یا ناکارہ وائرس کی صورت میں جسم میں داخل کئے جاتے ہیں جس کے رد عمل میں ہمارا جسم اینٹی باڈیز بناتا ہے جن کی وجہ سے بیماری پھیلانے والے کا حملہ ناکام ہوجاتا ہے اور ہم بیماری سے محفوظ رہتے ہیں۔

یورپی یونین نے پانچ قسم کی ویکسین استعمال کرنے کی منظور دی ہے۔ کووڈ19 کے خلاف دو طرح کی ویکسین بنی ہیں۔ ایک قسم فائیزر بائیوٹیک اور ماڈرنا کی ویکسین ہے جس میں میسنجر آر این اے کو بروے کار لایا گیا ہے جو ہمارے جسم میں جا کر مدافعاتی نظام کو اس طرح سے متحرک کرتا ہے کہ کووڈ 19 کے خلاف پروٹین بنتی ہے جو اس وائرس کے حملہ کو ناکام بناتی ہے۔

یہ ویکسین منفی 80 میں محفوظ رکھی جاتی ہے
دوسری ویکسین روایتی طریقہ سے بنائی گئیں جن میں آسٹرا زینیکا، جانسن فارماسیٹیکا اور Curevac شامل ہیں۔ اس طریقہ وائرس کا کچھ حصہ یا ناکارہ وائرس جسم میں داخل کیا جاتا ہے جس کے رد عمل میں ہمارے جسم کا مداقعتی نظام اس وائرس کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا کرکے بیماری سے بچاتا ہے۔ دونوں ویکسین یکساں طور پر موثر ہیں اور جسم کے لئے نقصان دہ نہیں البتہ کچھ لوگوں میں رد عمل کی علامات مثلا ہلکا بخار، سر درد یا حساسیت ہوسکتی ہے۔


اس ویکسین سے ناروے میں 23 افراد کی موت ہونے کے بعد ویکسین مخالفین کو پھر ایک موقع ہاتھ آگیا ہے۔ اس حوالے سے ناروے میں مقیم میرے بہت اچھے دوست اور میڈیکل اسپیشلسٹ ڈاکٹر ندیم حسین سید کی وضاحت کے مطابق ناروے کی حکومت نے سب سے پہلے عُمر رسیدہ افراد کو ویکسین دینا شروع کی۔ اور عُمر کی کم از کم حد 85 سال رکھی۔ ان عمر رسیدہ افراد میں سے 23 افراد ویکسین لگنے کے بعد فوت ہوئے۔

اُن میں سے 13 اموات کو محکمہ صحت چیک کر چُکا ہے۔ ان 13 افراد میں سے 7 کی عُمر 90 سال سے زیادہ ہے۔ لیکن یہ تمام کے تمام 13 افراد دوسری سنگین بیماریوں میں بھی مُبتلا تھے۔ اور ان کی متوقع عُمر ویسے بھی کم تھی ۔ ویکسین لگنے کے بعد جسم کے دفاعی نظام سخت رد عمل دیا اور ان میں سائیڈ افیکٹ کی علامات نظر آئیں۔ یہ صورت حال ان کے لیئے ناقابل برداشت تھے۔

حالانکہ رد عمل کی وہ علامات عام نوعیت کی تھں جیسے بُخار، جسم میں درد یا نقاہت اور اسہال  وغیرہ. یہ علامات معمولی سمجھی جاتی ہیں لیکن ان بزرگوں کی پہلے ہی صحت کی حالت اچھی نہ تھی جس وجہ سے اُن کے لیے یہ صورت حال بہت سخت ثابت ہوئی اور وہ جانبر نہ ہو سکے. محکمہ صحت کے مطابق ان افراد کو اگر ویکسین نہ بھی دی جاتی تو یہ موت کے قریب ہی تھے۔

لیکن اب محکمہ صحت نے راہنما اصول بدل دیئے ہیں۔ اور اب ایسے لوگوں کو ویکسین نہیں دی جائے گی۔ باقی 10 افراد کی موت کی وجہ کی تحقیق ہو رہی ہے۔ لیکن محکمہ صحت کا خیال ہے۔ کہ وہ بھی اسی وجہ سے فوت ہوئے۔ کیونکہ وہ بھی پہلے ہی خطرناک بیماریوں میں مبتلا تھے۔ سویڈن میں 97 سال کے ایک شخص کی ویکسین لگوانے کے بعد موت ہوئی ہے لیکن اس کے شخص کے پوسٹ مارٹم سے یہ ثابت نہیں ہوا کہ یہ صرف ویکسین کی وجہ سے موت ہوئی ہے۔


بہرحال ویکسین کے خلاف پروپوگنڈہ کو نظر انداز کرتے ہوئے جب بھی ویکسین لگوانے کا موقع ملیں تو اس سے ضرور فائدہ اٹھائیں اور کورونا وائرس سے تحفظ حاصل کریں۔ کورونا کی ہلاکت خیزی کے مقابلے میں ویکسین سے ردعمل کی علامات نہایت معمولی ہیں اور سے گھبرانے کی ضرورت نہیں۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :