
محسن پاکستان سے ایک یادگار ملاقات
بدھ 27 اکتوبر 2021

عارف محمود کسانہ
(جاری ہے)
میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز ہے کہ انہوں نے میری تینوں کتابوں سبق آموز کہانیاں 1، افکار تازہ اور سبق آموز کہانیاں 2 پر کالم لکھے جن سے ان کی مقبولیت میں بہت اضافہ ہوا۔ سبق آموز کہانیاں 1 پر ان کا انگریزی کالم سویڈن میں مقیم مشرق وسطٰی کی ایک علمی اور ادبی شخصیت کی نظر سے گزرا تو انہوں نے تلاش کرکے مجھے فون کیا اور اس کتاب کی بابت مزید تفصیل جاننا چاہی۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تحریر سے متاثر ہو کر اس کتاب کے عربی ترجمہ کی پیش کش کی اور پھر وہ کتاب عربی زبان میں شائع بھی ہوگئی۔ یہ محسن پاکستان کی بدولت ہی ممکن ہوا اور خدا انہیں اس کار خیر کا اجر عطا فرمائے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی خودنوشت "داستان عزم" کے مطالعہ سے نہ صرف ان کی زندگی کے حالات اور جدوجہد سے آگاہی ہوتی ہے بلکہ یہ کتاب اردو ادب میں ایک خوبصورت اضافہ ہے۔ علمی و ادبی کام کے علاوہ تعلیمی اور سماجی شعبہ میں ان کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ بہت سے تعلیمی اداروں سے ان کی وابستگی اور راہنمائی کبھی فراموش نہیں کہ جاسکے گی۔ ڈاکٹر اے کیو ہسپتال لاہور سے لاکھوں مریض بلا معاوضہ طبی سہولیات حاصل کرچکے ہیں اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہ ہسپتال ان کی انسانیت کے لئے بہت بڑی خدمت ہے اور ان کے لئے صدقہ جاریہ ہے۔

دو سال قبل جب مجھے پاکستان جانے کا موقع ملا تو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات کی خواہش پوری ہوئی۔ ان سے ملنا کوئی آسان کام نہیں تھا جس کا اندازہ مجھے ان تک پہنچے والے مراحل اور دوران ملاقات ہوا۔ یہ 22 نومبر کا دن تھا،سیکورٹی کے مراحل طے کرکے جونہی ہم گھر کے اندر پہنچے، ڈاکٹر صاحب بہت تپاک سے ملے۔ ہماری ملاقات میں بہت سی باتیں ہوئیں۔ انہوں نے اپنے زمانہ طالب علمی اور ہالینڈ کے دور کا بھی تذکرہ کیا۔ پاکستان کے جوہری پروگرام اور اس کے مختلف مراحل پر بھی بات ہوئی اور انہوں نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے ملٹری سیکرٹری میجرجنرل امتیاز کی بہت تعریف کی اور کہا انہوں نے بہت تعاون کیا جس سے ہمیں کام کرنے میں بہت آسانی ہوئی۔ ہماری ملاقات ان کہ اہلیہ سے بھی ہوئی جو بہت خوش خلقی سے ہمیں ملیں۔ 2004 کے بعد کے واقعات اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کا ذکر کرتے ہوئے ان کے لہجے کی افسردگی اور چہرے کا کرب نمایا تھا۔ جنرل مشرف کے بعد اقتدار میں آنے والوں کے رویے سے بھی وہ دکھی تھے۔ عدالتوں کی جانب سے دا رسی نہ ملنے کا بھی شکوہ کیا۔ ان تمام حالات کا ذکر کرتے ہوئے آخر میں انہوں نے ایک ایسی بات کہی کہ جسے کہتے ہوئے وہ بھی بہت دکھی ہوئے اور ہمارا بھی دل پارہ پارہ ہوگیا۔ کہنے لگے کہ جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں ہالینڈ سے پاکستان آنے پر اصرار کیا تو میں نے کہا کہ مجھے اپنی اہلیہ سے بات کرلینے دیں۔ ان کی اہلیہ پاکستان رہنے کے لئے رضامند نہ تھیں کیونکہ ان کے عمر رسیدہ والدین ہالینڈ میں تھے لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کے اصرار پر ان کی اہلیہ پاکستان میں رہنے کے لئے رضامند ہوگئیں۔ یہ بتاتے ہوئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی آنکھیں ڈبڈبا گئیں اور کہنے لگے جو سلوک میرے ساتھ ہورہا ہے اسے دیکھ کے میری اہلیہ اب کہتی ہیں کہ کاش میں نے آپ کی بات نہ مانی ہوتی اور ہم پاکستان نہ آتے۔ محسن پاکستان کیان الفاظنے ہمارا ہ دل چیر کر رکھ دیا۔ یہی کرب ان کے ان تینوں میں نمایاں ہے کہ
ہر شخص بے مثال ہے اور باکمال ہے
گزر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گزری ہے
ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
تازہ ترین کالمز :
عارف محمود کسانہ کے کالمز
-
نقاش پاکستان چوہدری رحمت علی کی یاد میں
ہفتہ 12 فروری 2022
-
یکجہتی کشمیر کاتقاضا
منگل 8 فروری 2022
-
تصویر کا دوسرا رخ
پیر 31 جنوری 2022
-
روس اور سویڈن کے درمیان جاری کشمکش
ہفتہ 22 جنوری 2022
-
مذہب کے نام پر انتہا پسندی : وجوہات اور حل
ہفتہ 1 جنوری 2022
-
وفاقی محتسب سیکریٹریٹ کی قابل تحسین کارکردگی
جمعہ 10 دسمبر 2021
-
برصغیر کے نقشے پر مسلم ریاستوں کا تصور
جمعرات 18 نومبر 2021
-
اندلس کے دارالخلافہ اشبیلیہ میں ایک روز
منگل 2 نومبر 2021
عارف محمود کسانہ کے مزید کالمز
کالم نگار
مزید عنوان
UrduPoint Network is the largest independent digital media house from Pakistan, catering the needs of its users since year 1997. We provide breaking news, Pakistani news, International news, Business news, Sports news, Urdu news and Live Urdu News
© 1997-2025, UrduPoint Network
All rights of the publication are reserved by UrduPoint.com. Reproduction without proper consent is not allowed.