آج کل کا شغل۔۔۔۔۔

اتوار 30 اگست 2020

Arshad Hussain

ارشد حسین

وہ مسلسل اس کی تضحیک اور تزلیل کر رہا تھا ۔ ان کی باتوں میں غلطیاں نکل رہا تھا۔ اور خود کو افلاطون سمجھ رہا تھا ۔ اور سوچ رہا تھا کہ میں بہت قابل بہت سمجھدار اور غلطیوں سے پاک ہو۔ باقی لوگ بہت کم سمجھ نادان اور ان پڑھ ہے۔ یہ صرف ان کا اپنا نظر اور سوچ تھا۔ حقیقت میں وہ انتہائی کم عقل، نا سمجھ اور انتہائی درجے کا جاہل انسان تھا ۔

جس کا پتہ تب لگا جب وہ محفل سے چلا گیا کیونکہ اس کے جانے کے بعد ، سب پاک اور پرہیزگار لوگ ان کی برائیاں اور ان کی کمزوریاں بیان کرنے میں لگ گئے ۔۔۔۔۔
معافی چاہتا ہولیکن یہ اجکل ہمارے محفلوں اور مجمعوں کا حال ہے۔ سب سے پہلے تو ہم اپنے اپ کو بہت عقل مند دیانتدار اور پرہیزگار سمجھتے ہیں ۔ اور دوسروں کو پاگل بے وقوف ،کم عقل اور گناہگار ، لیکن یہ صرف ہمارے سوچ اور ہمارے دل میں ہوتا ہے ۔

(جاری ہے)

حقیقت اکثر ان سے مختلف ہوتی ہے۔ دوسرے نمبر پر اج ہمارے معاشرے میں یہ رجحان بڑھتا جا رہا ہے ۔ کہ ہم سامنے اور ، اور پیٹ پیچھے کچھ اور ہو جاتے ہیں ۔ جو ہمارے سامنے ہوں ہم ان کی تعریف اور خوشامدی میں وہ صفات بھی ان کا بیان کر دیتے ہیں ۔ جو سوچ میں بھی ان میں نہیں ہوتے ، لیکن جب وہ ہمارے سامنے سے ہمارے محفل سے اور ہمارے دائرے سے نکل جاتے ہیں ۔

تو ہم ان کے وہ نقص وہ کمزریاں اور وہ بداخلاقیاں بیان کرنا شروع کرتے ہیں ۔ جو ان میں کبھی تھے ہی نہیں ، اور جسے غیبت کہتے ہے ۔ جسے میرا رب کہتا ہے ۔ کہ مردے بھائی کا گوشت کھانے سے بدتر ہے۔۔۔
یہ اج ہمارے معاشرے کا رسم اور قانون بن چکا ہے۔ یہ ایک فیشن ہے ۔ لیکن دوستوں کبھی غور کیا ہے ۔ کہ یہ کیوں ہمارے معاشرے  میں عام اور رواج ہوگیا ؟۔


کیونکہ اج ہمارے محفلوں میں ہمارے پاس ایک دوسرے کو  کرنے والے باتیں نہ رہی۔ اج ہمارے موضوعات بہت قلیل رہ گئی ہے ۔ کیونکہ اجکل مقابلے اور پیسے کا زمانہ  چل رہا ہے ۔ اجکل ہمارے موضوعات صرف دنیا کے اگے پیچھے گھوم رہے ہیں ۔ کہ ہم پیسے کسے کمایے گے ۔ دوسرے سے کیسے اس کا حق چین سکتے ہیں ۔ اور کیسے دوسرے کو کمتر ،حقیر اور بے وقوف ثابت کر سکتے ہیں ۔

ایک وہ محفلیں تھے جس میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی باتیں ان کی حدیث اور مفاد عامہ کی باتیں ہوتی تھی ۔ جس میں غیبت نامی  چیز سے لوگ نہ واقف اور نا اشنا تھے ۔ جو صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی یاد  کے لیے ہوتے تھے ۔ اور  اج دنیاوی فائدے اور دوسروں کے کمزوریاں  بیان کرنےکی  محفل ہوتے ہیں ۔ زمین اور اسمان کا نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ کا فرق ہے دونوں محفلوں  میں۔

۔۔۔
دوستوں زندگی میں ہمیشہ اپنے اپ کو دوسرے سے کمتر اور عاجز خیال کرنا چاہیے ۔ کیونکہ غیب  کا علم صرف اور صرف میرے رب کے پاس ہے اور وہ بہتر جانتا ہے کہ کون اچھا ہے اور کون برا،  کون گہناگار  اور کون  متقی ۔۔۔ تو یہ فیصلے اللہ پر چھوڑنے چاہیے ۔ ہمارا کام فیصلہ کرنا یا کسی کا تزلیل کرنا یا کسی کو کمتر سمجھنا نہ ہو بلکے کسی کی زندگی میں اسانی لانا ،کسی کی زندگی میں ارام اور سکون لانا ،اور کسی کی بے حد عزت کرنا ہوں۔

۔۔۔
 ساتھیوں کسی کی برائیاں کرنے یا ان کے کمزوریاں بیان کرکے ہم اپنے اور اس کےزندگی میں کو ئی تبدیلی نہیں لا سکتے بلکہ الٹا اس سے بغض اور حسد میں اضافہ اور اپنے زندگی میں مشکلات پیدا کرتے ہیں ۔۔۔۔
 اگر کسی کی زندگی میں اسانیاں نہیں لا سکتے تو مشکلات کا سبب بھی نہ بنو۔۔۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :