ترقی کا راز

پیر 18 جنوری 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

خوابوں کے حقیقت کو جاننے کے لئے جو بے خوابی اور بے چینی ہوتی ہے  ۔ جو اپنے خوابوں کو دلخراش صدمات اور تھک آمیز محنت کے بعد دیکھتے ہیں۔ جو بدن کے آرام دہ سوچ پے دھیان نہیں دیتے ۔ ایسے جوان، ایسے مسافر، ایسے بندے، اپنے منزل مقصود تک ضرور پہنچتے ہیں۔ گر پڑ کر، اٹھتے بیٹھتے جب اپنے منزل پا لیتے ہیں۔ تو پیچے گزرے ہوئے درد،  برداشت کی ہوئے تکالیف اور وہ محفلیں جس سے اسے بے دخل کیا جا چکا تھا بھول جاتے ہیں۔

اس کو یاد کرکے دل کرتا ہے کہ سب کو چیخ چیخ کے بتائیں پر نہیں بتا سکتے ۔ پتا ہے کیوں؟ کیونکہ ہم جسے دانشور اور خود کو افلاطون سمجھنے والے لوگ ان پر تنقید کی  بارش کر دیتے ہیں۔ ایک اچھا تجربہ،  ایک اچھی سوچ اور ایک اچھی کوشش گمنام ہوجاتا ہے۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔۔۔
ہم لوگوں کا موٹو ، ہماری انسپریشن،  اور ہمارے اتفاق کا مقصد صرف اور صرف لوگوں پر تنقید کرنا،  اور اپنے جیسے تنقید پسند اور لوگوں کے لئے مضر زندگی والے اشخاص کو اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔

ہمارے سیاسی پارٹیوں سے لے کے ہمارے سکول،  کالج اور گلے محلے کی گیدرنگ صرف لوگوں کو نقصان پہنچانے،  ان کے زندگی کو تنگ کرنے ، اور ان کے چالوں کو سمجھنے کے لیے ہوتے ہیں۔ ہم کبھی اللہ کے لئے ایک دوسرے سے نہیں ملتے ، لوگوں کے فلاح کے لیے ایک جگہ اکٹھے نہیں ہوتے ۔ ہم صرف حسد ، بدلہ ، اور دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے یکجا اور ایک قلب دو جان ہوتے ہیں۔

ہمیں ہر وہ آدمی زھر لگنے لگتا ہے۔ جو خود کو دوسروں کے لیے مفید اور فائدہ مند بناتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم ترقی کیوں نہیں کرتے ؟ معلوم ہے؟ کیونکہ ہم چاہتے ہی نہیں کہ ہم ترقی کریں ۔ ہم پروفیسر مارشل کے تیوری کو اپلائی کرتے ہیں۔ پروفیسر رابنز کی تیوری میں اپنے نظام کو رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن جو میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا اسے نہیں اپناتے،  " کہ تم میں سے کوئی مومن نہیں ہوسکتا جب تک اس کے ہاتھ ، زبان سے دوسرے محفوظ نہ ہو " ہم اپنے زبان اور اپنے افکار کی وجہ سے بہت سے اچھے سوچوں،  بہت ہی مفید کاموں،  اور بہت ہی مناسب حالات سے محروم رہ جاتے ہیں ۔

کوئی موٹیوئیشنل استاد کوئی تقریر کرنے لگتا ہے۔ کوئی لیکچر اور بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ تو میں نے بہت سے لوگوں سے سنا ہے۔ یہ مالدار اور بے غم لوگ ہیں اسلئے تقریر اور لیکچر دے رہے ہیں۔ ان کو پتہ ہی نہیں کہ دنیا میں کتنے غم ہیں  وغیرہ وغیرہ۔ ارے بھائی آپ کو نہیں سننا نہ سنو لیکن دوسروں کو  تو متنفر نہ کرو ۔ ۔۔۔۔۔۔
تعلیم پے تعلیم اور ڈگریوں پے ڈگریاں حاصل کر رہے ہیں۔

لیکن اداب اور خدمت خلق سے کوسوں دور جا رہے ہیں۔ فرقہ پرستی میں روز بروز ترقی ہو رہی ہے۔ لوگوں کو بے عزت کرنے کے نئے نئے جديد طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔ اور افسوس زندگی میں سکون ، راحت اور آخرت میں نجات ڈھونڈ رہے ہیں۔ کونسا ہمارا عمل،  ہمارے لئے سکون ونجات کا سبب بنے گا ۔ کونسے ہمارے عمل سے ہمارا معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بنے گا ۔ اس پر بھی تھوڑا سوچنا چاہیے۔


دوسروں کو اپنے زندگی میں عزت اور اہمیت دوگے ۔ ان کی بات سنو گے ،ان کی اداب کروگے تو بدلے میں تمھیں یہ سب ملے گا۔ بڑوں کی تجربات اور مشاہدات کو سن کے دنیا کے ساتھ کندھے سے کندھا مل کے چل سکو گے۔ دوسرے کے تکلیف کو دور کرنے کے لئے خود کو تکلیف اور تھکاوٹ میں ڈالوگے تو اللہ رب العزت تمھاری زندگی آسان کریگا ۔ تمھاری زندگی سکون سے اور آرام سے بھر پور ہوگا۔

اپنے زبان کو ، انکھ ، ہاتھ کو قابو کروگے ، تو اس کا استعمال انمول ہو جائے گا۔ محفلوں میں،  سر راہ ، تیرا مزاق اڑایا جائے گا ۔ محفلوں سے نکل دی جاوگے ۔ کم لوگ ملنے آئینگے۔ پتہ ہے کیوں ، کیونکہ جہاں دوسروں کی برائی اور غیبت نہ ہو۔ وہ محفل چھوٹا اور مختصر ہوتا ہے۔ لیکن ان کے فائدے بے شمار اور بدلے بے حساب ہوتے ہیں۔ ۔۔۔ 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :