قربانی کی استطاعت

پیر 19 جولائی 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

رات کے آخری پہر میں رونے والے ، اپنی نیند اللہ کے رضا کے لیے چھوڑنے والے انسان نہیں،  انسانیت کو زندہ کرنے والے اللہ کے پسندیدہ بندے ہوتے ہیں،  ایسے لوگوں کی وجہ سے ہم جیسے گناہگار لوگوں کو بھی اللہ کی نعمتیں اور رحمتیں پہنچتے ہیں،  ایسے بندے، ایسے انمول بندے، رب کے حضور گڑگڑا کے انسانیت کے لیے خیر مانگتے ہیں، ،،
عیدالاضحٰی کی امد آمد ہے ، بابرکت عشرہ شروع ہو چکا ہے،  عبادات کرنے والے عبادات میں مصروف ہو چکے ہیں،  جب کے میرے جیسے گناہگار دنیا کے پیچھے بھاگ رہے ہیں،  وہی مصروفیات،  وہی دنیاداری،  بے ایمانی،  جھوٹ،  اور دو نمبری عروج پر ہے،  جہاں کرونا نے قوت خرید میں نمایاں کمی ہے ، متوسط طبقہ نہ رو سکتا ہے نہ ہنس سکتا ہے وہاں رہی سہی کسر مجھ جیسے ایماندار لوگ نکال رہے ہیں،  مہنگائی کو ایمان کا درجہ سمجھ کے کر رہے ہیں،  اور محفل میں بیٹھ کے بے ایمانی اور دوغلے پن پر بڑی بڑی تقریریں۔

(جاری ہے)

۔۔۔۔۔
سنت ابراہیمی کو ادا کرنے والے کرونا اور مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں،  اللہ سب پر اپنا خاص رحمت فرمائے اور غیب کے خزانوں سے ان کی ضروریات پوری کرے آمین، ،، لیکن زیادہ تر مجھ جیسے کم علم لوگوں کو قربانی تو یاد ہے پر باپ بیٹے کے ایثار اور جذبے کو ہم بھول چکے ہیں،  ہم میں سے بہت سے لوگ یہ شکایت کرتے ہیں کہ حالات بہت خراب ہے کرونا نے اور مہنگائی نے سب کچھ تباہ و برباد کیا ہے،  استطاعت ختم ہوگئی ہے ، ہم بھول گئے ہیں کہ وہ کیا حالات ہونگے جب ایک باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرنے کے لیے ،قربان کرنے کے لئے لے جا رہا تھا،  ایک باپ کے لئے اپنے بیٹے کو ذبح کرنا قربان کرنا کیسا تھا،  دلی کیفیت کیا ہوگئی ، باپ کی شفقت کیا کہہ رہی ہوگی ،  کیا اج کا باپ کروڑوں اربوں کے بدلے اپنے بیٹے کو ذبح کر سکتا ہے؟،  اس کو قربان کر سکتا ہے،؟  اور بیٹا اپنے باپ کو اس کی اجازت دے سکتا ہے؟،  آسانی سے اور رب کا حکم سمجھ کے قربان ہوسکتا ہے۔

؟
ہم تیس چالیس ہزار کا موبائل آسانی سے پیسے جوڑ کے خرید سکتے ہیں لیکن قربانی کے لیے مختلف بہانے اور دلیل دے کے خود کو قربانی سے دور کر لیتے ہیں،  ہم ہر کسی سے پوچھتے رہتے ہیں کہ میرے پاس یہ ہے وہ ہے اتنا ہے کیا مجھ پر قربانی واجب ہے ، جبکہ حقیقت میں ہم کو سب سے زیادہ معلوم ہوتا ہے ہمارا دل ہمارا دماغ چیخ چیخ کے ہم سے کہتا ہے کہ ہم پر قربانی واجب ہے اور ہم میں قربانی کی استطاعت بھی ہے لیکن ہم یہ آوازیں نہیں سنتے ، ہم آنے والے کل کی فقر اور تنگ دستی سے ڈر جاتے ہیں،  ہم رزق دینے والے رازق پر نہیں اپنے وسائل پر فیصلہ کرتے ہیں۔

۔۔۔
بابرکت عشرہ شروع ہو چکا ہے کوشش کرنی چاہیے کہ زیادہ سے زیادہ عبادات، اذکار اور افکار کی جائے،  اور ہوسکے تو سب سے اچھا اور بہتر عبادت قربانی ادا کی جائے،  اگر قربانی کی طاقت نہ ہو تو اللہ سے دعا اور اللہ کی عبادت دل و جان سے کی جائے،  اور جو بھائی قربانی کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں وہ اپنے غریب اور لاچار ہمسایوں کو گوشت کے ساتھ ساتھ دوسرے ضروریات کا بھی خیال رکھے،  اللہ نیتوں پر فیصلے کرتا ہے اللہ کو گوشت وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں جس طرح ابراہیم علیہ السلام کی نیت اور خلوص کو قبول فرمایا ایسے ہمارے ٹوٹے پوٹے عبادت اور قربانی کو قبول فرمائے،  اور اس قربانی اور عبادات کے بدولت حرم شریف کی رونقیں بحال فرمائے آمین۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :