بے اتفاقی کا سبب

پیر 20 ستمبر 2021

Arshad Hussain

ارشد حسین

یہ لوگ،  میرا دل کرتا ہے کہ میں ان  سب کو مار دو ۔ کسی کے ساتھ بھی بھلائی نہ کرو، جتنا مجھ سے ہوسکے میں ان لوگوں کو نقصان پہنچاو، یہ سب لوگ بے غیرت منافق اور احساس سے محروم لوگ ہے، کبھی کبھی دل کرتا ہے کہ میں ان کے دشمنوں کے ساتھ مل کے ان سب کو جلا دو۔ میں ان کا خیر خواہی کرنا چاہتا ہوں لیکن ان کے اعمال اور الٹے کاموں کی وجہ سے دل روک لیتا ہے۔

میرا دل نہیں کرتا کہ میں ان کے ساتھ کوئی تعلق رکھو یا ان کو کوئی خیر پہنچاو، میں نے ان کے لئے یہ کیا وہ کیا نہ دن دیکھا نہ رات اپنا پیسہ لگاتا رہا ان کی خدمت کرتا رہا لیکن دیکھو یہ لوگ ایسے نہیں ویسے نہیں۔۔۔۔۔
یہ کام بہت خراب ہے میں بھی مانتا ہوں لیکن یہ صرف میرا مسلہ نہیں، میرا ذاتی کوئی نفع نقصان نہیں پورے علاقے کا مسئلہ ہے کیوں اتفاق سے حل نہیں کرتے؟۔

(جاری ہے)

میں ہی کیوں اس کو سلجھانے کا مشقت اٹھاو؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یہ وہ باتیں وہ سوچیں ہیں جس سے اجکل ہمارا معاشرہ نبردازما ہے۔اور ہر روز ہماری باہمی محبت ہار رہی ہے اور نفرت جیت رہی ہے۔ محبت مٹ رہی ہے احساس ختم ہو رہا ہے۔ تعلق کمزور ہورہے ہیں، انا جیت رہی ہیں بھائی چارہ ہار رہا ہے۔ اتفاق ختم ہورہا ہے بے اتفاقی سر اٹھا رہی ہے۔۔
اپ مشاہدہ کریں کسی کے ساتھ ایک دن ایسے ہی کسی انجان سمت نکل جائے اور راستے میں انے والی ہر اس کام کی جو لوگوں کو تکلیف پہنچاتی ہے چاہے وہ راستے میں پڑا ہوا پتھر ہو یا راہ پر بہنے والی پانی یا  کوئی دوسری مشکل کے بارے میں گفتگو شروع کریں تو آپ کو یہ سب جوابات ملے گے ۔

یہ ہمارے اکیلے کا مسئلہ نہیں میں نے کوشش کی تھی فلاں مسلے میں کوئی میرے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ میں کیوں اپنے اپ کو فرنٹ لائن پر لاؤ؟،  فلاں آدمی تو یہ کہتا ہے وہ کہتا ہے وہ کیوں نہیں کرتا؟ ۔ اجکل کا زمانہ بھلائی والا نہ رہا اج کے زمانے میں جتنا لوگوں کو فائدہ پہنچاوگے تو ان کے دشمن بن جاو گے ۔ ۔۔۔
ان لوگوں ،ان باتوں،  ان سوچوں کی وجہ سے ہم ایک دوسرے سے دور ہو رہے ہیں۔

ہم  علاقے کے کسی بھی مسئلے کو پرسنل نہیں لیتے۔ کوئی بھی بھلائی کا کام اس وجہ سے نہیں کرتے کہ یہ لوگ بھلائی کے قابل ہی نہیں ہیں۔  کیوں میں ان ساتھ بھلائی کرو۔ معافی چاہتا ہوں عام لوگ تو عام،  علماء کرام حضرات بھی اب صلحہ رحمی اور محبت والے مسلے نہیں چھیڑتے، بہت کم ہی ایسے علماء کرام ہونگے جو نماز سے پہلے بولتے ہیں ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہوجاوں، پاؤں سے پاؤں ملاؤ ان سے محبت بڑھتی ہے۔

ان سے دلوں کا گند صاف ہوتا ہے ۔ ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی کرو ۔ ایک پروفیسر صاحب پرسوں مجھے بتا رہے تھے مجھے اس کی بات بہت اچھی لگی ۔ کہ یہ حضرات لوگوں کو تو یہ بتاتے ہیں کہ ایک وظیفہ کرنے سے اتنی نیکیاں ملتی اور وہ وظیفہ کرنے سے اتنی لیکن یہ نہیں بتاتے کہ نیکیوں کا بدلہ کسی کے لئے ہیں۔ کسی کی نیکی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے، پہلے عقائد پر محنت پھر معاملات میں قرآن وسنت، اس کے بعد ہی عبادت میں مزہ اور عبادت کا اجر ملتا ہے۔

اس کے بعد ہی سبحان اللہ پڑھنے کا مزہ ہے۔ اس کے بعد ہی ہر عمل پر بے حساب اجر عطاء کی جاتی ہے۔ لیکن اگر اس کے برعکس ہو تو علامہ اقبال فرماتے ہیں۔۔۔
اللہ سے  کرے دور تو  تعلیم  بھی فتنہ
املاک بھی اولاد  بھی جاگیر بھی فتنہ
ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر  بھی    فتنہ
جو قوم کے لئے کھڑا ہوا ۔

جو بھلائی کے لیے لڑا ، جو لوگوں کی زندگیوں میں اسانیاں لانے کے لئے خوار و زار ہوا، وہ انمول بن جاتا ہے۔ وہ انسانوں میں رہ کر آسمان والوں کا محبوب بن جاتا ہے۔ وہ لوگوں کو تولتا نہیں وہ لوگوں کو جوڑتا ہے ۔ وہ مسلے مسائل بناتا نہیں،  مٹاتا ہے ۔ اس کو پھر اس سے کوئی غرض نہیں ہوتا ہے کہ کوئی میرے ساتھ کھڑا ہے یا نہیں یہ میرا مسلہ ہے یا نہیں، بس وہ حل کے طرف بھاگتا اور کوشش کرنے والا بن جاتا ہے۔

وہ چھوٹے بڑے کام صرف اور صرف لوگوں کے بھلائی کے لیے کرنے لگ جاتا ہے۔ ان کا بدلہ ان کا معاوضہ پھر رب کریم کے دربار میں جمع ہونے لگتا ہے۔ اس کو پھر ان سے کوئی سر وکار نہیں رہتا کہ لوگ کیا کرتے ہیں کون کون سی کمیاں ہیں ان میں،  بس وہ آسانی لانے کے لئے دوڑتا ہے اپنا پسینہ نکلتا ہے۔ اور اپنی کوشش کرتا ہے۔۔۔۔۔
اے میرے رفیقوں او ہم بھی ان انمول لوگوں میں اپنا نام درج کرتے ہیں۔

ہم بھی اللہ کے وہ بندے بن جاتے ہیں جسے دنیا اور دنیا والوں سے کوئی بدلہ کوئی سروکار نہیں ہوتا ، جتنا بس میں ہو جہاں بھی اللہ توفیق دے اپنے علاقے اپنے شہر اپنے گاؤں کے چھوٹے چھوٹے مسلوں کو حل کرنے کے لیے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ لوگ چاہے لاکھ نفرت کریں محبت بنٹنے والے بن جاتے ہیں۔ لوگوں کے اعمال اللہ پر چھوڑ کے اپنے بس کے مطابق مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے میں لگ جاتے ہیں۔ اپنا بدلہ اپنا معاوضہ رب کریم کے دربار میں درج کرنے والوں میں شمار ہو جاتے ہیں۔۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :