شہبازشریف ووٹ کی عزت اور

منگل 24 ستمبر 2019

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

نوازشریف سے معاملات طے پائے جانے کی اطلاعات گردش میں ہیں ۔ بعض نے تو مکمل پلان ہی طشت ازبام کردیا کہ نوازشریف کی تمام شرائط کو من وعن تسلیم کرلیا گیا ہے اور نقارہ بجنے والا ہے ۔ مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی مخلوط حکومت بنائی جائے گی ۔ مقتدرہ اپنے کیے کی سر عام معافی بھی مانگے گی اور تمام مقدمات کو غلط قرار دیکر ختم کردیا جائے گا ۔

عمران خان کو باعزت طریقے سے گھر کی راہ دیکھا دی جائے گاکیوں کہ عمران خان ملک چلانے میں مکمل فیل ہوچکے ہیں ۔ جس کے باعث مقتدرہ نہ صرف مایوس ہوئی ہے بلکہ سخت ناراض ہے کہ عمران خان اپنے وعدوں اور دعووں کے برعکس کچھ نہیں کر پائے ہیں ۔ اس امر کی تصدیق رشیخ رشید نے بھی کردی کہ شہباز شریف دوبارہ ایکٹو ہوئے ہیں اور مقتدرہ نوازشریف سے بات کررہی ہے ۔

(جاری ہے)

شیخ رشید نے حسب سابق جو کہنا تھا کہہ دیا ۔ بات کھول بھی دی اور چھپا بھی گئے ۔ شہبازشریف مسلم لیگ ن کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہونے کے باوجود نہ مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر کھل کر چل پارہے ہیں اور نہ بطور اپوزیشن لیڈر بات بن رہی ہے ۔ بڑے بھائی کا سایہ دم مارنے نہیں دیتا ہے ۔ نوازشریف تو نوازشریف ہیں ۔ مریم نواز کا پرتومت مار دیتا ہے ۔

شہباز شریف کی سیاست کےلئے مریم نواز بیٹی ہونے کے باوجود سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ مسلم لیگی حلقے اور کارکنان نواز شریف کے بعد صرف مریم نواز کے حلقہ اثر میں ہیں ۔ صورتحال یہ ہے کہ شہباز شریف مریم نواز کے ساتھ بیٹھ کر پریس کانفرنس نہیں کر سکتے ہیں ۔ کوئی جلسہ نہیں کر سکتے ہیں ۔ پریس کانفرنس ہو تو میڈیا کی توجہ مریم نواز کی طرف ہوتی ہے ۔ جلسہ ہو توعوام کی جانب سے نعرے مریم نواز کے لگائے جاتے ہیں ۔

واقعاتی شہادتوں اورمجموعی صورتحال یہ ثابت کرتی ہے کہ نوازشریف اور مریم نواز کی زیادہ پریشانی میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز شریف کو ہے ۔ حکمرانوں کو اتنی عجلت نہیں ہے ۔ جتنی برادران یوسف کو ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز سیاست سے کنارہ کشی یا ملک سے باہر جانے پر راضی ہو جائیں ۔ جس کا سیدھا مطلب ہے کہ سنیاں ہو جاون گلیاں تے وچ مرزا یار پھرے ۔

قیاس ہے کہ نوازشریف کے ساتھ مقتدرہ کی جانب سے مفاہمت کی خبریں پھیلانے کے ماسٹر مائند بھی چھوٹے میاں ہیں اور چھوٹے میاں ہی مقتدرہ سے بات کرتے ہیں جو نواز شریف مسترد کردیتے ہیں ۔ نواز شریف بھی شاید چھوٹے بھائی کی خواہش سے واقف ہیں ۔ شہباز شریف کی سیاسی زندگی مقتدرہ کے ساتھ جوڑ توڑ پر مبنی ہے ۔ مزاحمت کی سیاست میں شہباز شریف کبھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے نہیں ہوئے ہیں ۔

وہ ہر حال میں مفاہمت چاہتے ہیں بے شک نوازشریف کی قربانی دینا پڑے ۔ ووٹ کی عزت کا فلسفہ اور سولین بالادستی کی بات ڈیل اور مفاہمت کی کہانیوں میں کھوکر رہ گئی ہے ۔ شہباز شریف کی مفاہمتی کوشش پر نوازشریف کا ردعمل شرائط پر مبنی ہوتا ہے ۔ مطالبات رکھے جاتے ہیں ۔ خفت مٹانے کی خاطر ڈیل اور مفاہمت سے بھی انکار کیا جاتا ہے ۔ ڈیل اور مفاہمت کی حقیقت یہی ہے کہ شریف برادران سیاست نہیں کاروبار کرتے ہیں اور اچھا کرتے ہیں ۔

سیاست ان کے لئے ایک بہترین اور توانا کاروباری ہتھیار ہے ۔ آج نہیں تو کل شہباز شریف معاملات طے کر نے میں کامیاب ہوں گے ۔ مفاہمت ،ڈیل کی کوئی بھی شکل ہو سکتی ہے ۔ نوازشریف سیاست سے کنارہ کشی پر راضی ہو سکتے ہیں ۔ بیرون ممالک جا سکتے ہیں ۔ ڈیل کے ماہرین کچھ اسی صورت بھی نکال سکتے ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور ڈنڈا بھی بچا لیا جائے ۔ جو لوگ نوازشریف اور مریم نواز سے سولین بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے کی امید رکھتے ہیں انہیں شاید اس بات کا علم نہیں ہے کہ شریف خاندان کے لوگ بہت سیانے ہیں ۔ وہ کبھی اپنا نقصان نہیں ہونے دیتے ہیں ۔ ایسا جذباتی پن بھٹو ز میں ہی پایا جاتا ہے ۔ جو شہادت کو مفاہمت پر ترجیح دیتے ہیں اور گڑھی خدا بخش کا قبرستان آباد کرتے چلے جاتے ہیں ۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :