سرخ گلابوں کادن اور عورت مارچ اور قیادت کا بحران

پیر 1 مارچ 2021

Arshad Sulahri

ارشد سلہری

14فروری کو یوم محبت منایا جاتا ہے۔محبت کرنے والے ایک دوسرے کو سرخ گلاب کے پھول دیکر اظہار محبت یا تجدید محبت کرتے ہیں۔ پچھلے کئی سالوں کی طرح حسب روایت یوم محبت گزر گیا ہےاور ساتھ ہی کئی لوگوں کا جذبہ ایمانی بھی رفوچکر ہوگیا ہے۔ یوم حیاء کا دن بھی گیا۔یوم سسٹر بھی گیا۔یعنی حیاء اور یوم سسٹر محبت کے دن کی ضد میں منانےکا محض اعلان کیا جاتا ہے۔

کچھ کالے دل والے محبت کی مخالفت اور نفرت کے حق میںاخبارات میں اوٹ پٹانگ مضامین تراشتے ہیں اور کئی جعل ساز رنگین ایڈیشن دے مارتے ہیں ۔سوشل میڈیا پر بھی نیک نامی اور اپنے ایمان اور اسلامی ذہین کی نمائش کے لئے یوم محبت کی ضد میں نفرتوںکی تبلیغ میں بہت کچھ لکھتےہیں۔یوم حیاء بھی عورت کےلئے ہے۔یوم سسٹر نام سے ہی ظاہر ہے۔

(جاری ہے)

بہنوں کے دن کی بات ہورہی ہے۔

تختہ مشق عورت ہی کو بنایاجاتا ہے۔مرد کےلئے کوئی شرم و حیا ء نہیں ہے۔
مرد حضرات عورتوں کے جسمانی اعضاء پر شاعری کریں۔زلفوں  سے کھیلنے کی باتیں کریں۔پبلک مقامات پر چھیڑخانی کریں۔آوازیں کسیں۔ریپ کریں۔معصوم بچیوں تک کے ساتھ زیادتی کرکے قتل کردیں ۔کوئی باپردہ اسلامی بہن یوم حیا اور یوم سسٹر منانے کا تقاضا نہیں کرتی ہے۔
مذہبی طبقات کسی پر فحاشی وعریانی کا الزام نہیں دھرتے ہیں ۔

منبرومحراب سے کوئی مذمتی بیان وخطاب نہیں ہوتا ہے۔غیرت ایمانی نہیں جاگتی ہے۔کوئی انصار عباسی ،اوریا مقبول اور زید حامد تردید نہیں کرتا ہے کہ یہ غیراسلامی ہے اور ہمارا کلچر نہیں ہے۔مگر عورت کی محبت وپیار کی ہر بات پر غیرت ایمانی بھڑک اٹھتی ہے۔
عورت مارچ بھی قریب ہے ۔ ان کا جذبہ ایمانی پھر جاگنے والا ہے۔ ان کے اسلامی اذہان پھر ابلیں گے۔

پھر جذبہ ایمانی میں عورتوں کو غلیظ گالیاں دی جائیں گئیں ۔موم بتی اور لبرل آنٹیاں کہہ کر مغلظات سے نوازا جائے۔ شاید یہ طے کیا گیا ہے کہ نفرت کا اظہار ہی سچے ایمان اور عقیدے کا معیار ہے اور معیار کو برقرار رکھنے کےلئے مشق جاری رکھنا ضروری ہے۔ خلیل رحمن قمر جیسی قیادت بھی پیدا کرچکی ہے اور  اس نازاں ہیں۔
گزشتہ سال ہم نے عورتوں کی جو تکریم کی اورجتنے حقوق دیئے ہیں۔

میڈیا خبروں سے بھرا پڑا ہے۔اس کے باوجود پاکستان کی خواتین نے  ہر شعبہ زندگی میں خود کو منوایا ہے۔عورتوں کے حقوق اور مساوی حق کی تشریح بہت ہوچکی ہے۔ہر پہلوؤں سے امکانات بالکل واضح ہوچکے ہیں۔کوئی امر اب پوشیدہ نہیں رہا ہے۔عورتوں نے شرم و حیا ء سمیت  مادر پدر آزادی ،غیرت،فحاشی و عریانی کی تعریف اور معانی بھی سامنے رکھے ہیں ۔جس کو جواز بناکر عورت کا استحصال کیا جاتا ہے اور عورت کی آواز دبائی جاتی ہے۔

مذہب کو ڈھال بناکر مصنوعی مقدس چادر چڑھائی جاتی ہے۔اس کا پردہ چاک کیا ہے۔اس جدوجہد میں عورت نے بے شمار قربانیاں دی ہیں ۔جکڑبندیوں اور جبر کے ماحول میںبلاشبہ یہ کارہائے بھی عورتوں نے ہی انجام دیا ہے۔
 اس پیدا شدہ صورتحال اور سیاسی و سماجی ماحول  میں سیاسی جماعتوں نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا ہے۔محض اقتدار کی لڑائی میں مصروف رہی ہیں۔

ملک کی سیاسی تاریخ اس امر کی گواہ ہے۔ماسوائے قائد عوام ذوالفقارعلی بھٹو شہید اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے جنہوں نے آئین سازی اور ملکی و قومی تعمیر و ترقی کےلئے بھی بہت کچھ کیا ہے۔مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں ہے کہ آج تک پاکستان کے پاس جو کچھ بھی ہے بھٹو شہید کی قیادت کے مرہون منت ہے۔
معروضی حالات چیخ چیخ کر ہمیں یہ باور کروا رہے ہیں کہ ملک میں قیادت کا فقدان ہے۔

پی ڈی ایم کی شکل میں اتحادیوں کے پاس ملک وقوم کے لئے کوئی ایجنڈا نہیں ہے۔لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے سنجیدہ طبقات ،دانشور ،سیاسی و سماجی کارکن محنت کشوں ،عورت مارچ ،طلبہ اور کسانوں کی تحاریک کو سپورٹ کریں تاکہ نئی قیادت جنم لے سکے ۔
قیادت کے فقدان اور بحران کے سبب ہی یہ سیاسی بے راہ روی ،عورتوں کی تذلیل اور نفرتوں کی تبلیغ جیسی خرافات کا سامنا ہے۔بہتر قیادت آگے بڑھنے اور تعمیر و ترقی کا بیانیہ دیتی ہیں ۔ملک وقوم کو بھنور سے نکالتی ہیں۔قیادت میسر ہو تو عوام آپس میں نہیں الجھتی ہے بلکہ قیادت کے طے کردہ مقاصد کے حصول کےلئے کام کرتی ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :