صدارتی نظام حکومت اور پاکستان

بدھ 1 مئی 2019

 Asfand Yar Ali Rathor

انجینیر اسفند یار علی راٹھور

کہتے ہیں جب ایوب خان نے پہلا مارشل لاء لگایا تو پارلیمانی جمہوریت اور حکومت ہٹانے کی کئی وجوہات میں سے ایک یہ وجہ بھی بیان کی کہ پاکستان چونکہ گرم ملک ہے اور پارلیمانی نظام حکومت صرف ٹھنڈے ملکوں میں کامیاب رہا ہے اسلئے  پاکستان میں اسکا چلنا اور پھل دینا مشکل ہے،آج تقریبا 60 سال بھی ہم تاریخ کے اسی دوراہے پہ کھڑے ہیں کہ جب صدر عارف علوی نے یہ بیان دیا کہ حکومت صدارتی نظام حکومت پہ غور کر رہی ہے،اس اعلان کیساتھ ہی فیس بک اور واٹس ایپ میں اچانک پردے کے پیچھے چھپے لوگ برساتی مینڈکوں کی طرح صدارتی نظام حکومت کی حمایت میں نکل آئے ،اور اس ملک میں عوام کا لفظ "اسلام" کے ساتھ رومانس کی وجہ سے اسے مذہبی ٹچ دینے کے لیے ساتھ "اسلامی" کا سابقہ لگایا
عمران خان اور پی ٹی آئی کا یہ بیانیہ رہا ہے کہ اگر اوپر بندہ ایماندار آجائے تو نیچے والے سارے ٹھیک ہو جاتے ہیں اس تھیوری کو وہ Trickle Down Effect کہا کرتے تھے اور کئی جلسوں میں اس پہ لمبی تقریریں بھی کر چکے ہیں لیکن حکومت میں آنے کے بعد ااس تھیوری کی کامیابی شک کی نگاہ سے دیکھی جانے لگی ہے، یہ بات حقیقت ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں اپنی سادہ اکثریت کی وجہ سے پریشان ہیں اور ان کی اینٹی سٹیٹس کو ،اینٹی کرپشن سیاست انھیں ملک کی دو بڑی جماعتوں سے آئینی مشاورت یا قانون سازی سے روکے ہوئے ہیں لیکن اسکا یہ مطلب نہیں کہ یہاں جمہوریت ناکام ہوئی ہے_
دیکھا جائے تو پی ٹی آئی کو 2018 کے الیکشن میں ووٹوں کے تناسب سے 29 فیصد ووٹ ملے ہیں اگر یہی ووٹ صدارتی ڈائریکٹ الیکشن میں پڑھیں تو بھی یہ سادہ اکثریت نہیں بنتی اور کوئی بھی متفقہ امیدوار عمران خان کو ٹف ٹائم دے  سکتا تھا،اور یوں بھی اگر ایسا ہو جائے تو پنجاب کی آبادی کا ملک کی 58 فیصد آبادی ہونا اس بات کا خدشہ ظاہر کرتا ہے کہ صدر کے لیے پنجاب سے  ہونا اسے فائدہ پہنچائے گا__
صدارتی نظام کی خواہش والوں کے  نزدیک پارلیمانی نظام میں وزیر اعظم لیجسلیچر کے زریعے بلیک میل ہوتا ہے اور کھل کر کام نہیں کر سکتا اور اس نظریے کے لیے وہ امریکہ کی مثال دیتے ہیں جہاں صدارتی نظام حکومت ہے،لیکن اگر امریکہ میں نظام حکومت پہ غور کیا جائے تو آئنی طور پہ صدر پہ کانگریس Check and Balance رکھتی ہے, اسے Impeach کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے ، اور صدر کی طرف سے کی گئی ویٹو کیخلاف قانون سازی کر سکتی ہے  یوں صدر کانگریس کو جوابدہ ہوتا ہے لیکن پاکستان میں جیسے صدارتی نظام کی  بات کی جا رہی ہے اسے دوسرے لفظوں میں ڈکٹیٹر شپ کیا جائے تو غلط نہ ہو گا کیونکہ یہاں صدارتی نظام کو کسی کے آگے جوابدہ نہ ہونا سمجھا جا رہا ہے،اگر ایسا کو بھی جائے تو قانون ساز اسمبلی کے لیے جو ممبران منتخب ہو کر آئیں گئے وہ بھی موجودہ اسمبلی کی کی طرح صدر کو ٹف ٹائم دے سکتے ہیں  
صدارتی نظام کے بارے میں موجودہ کیمپین اس وقت سامنے آئی جب 18 وی ترمیم رول بیک کرنے کیخلاف چھوٹے صوبوں کی طرف سے ممکنہ رد عمل کو روکنے کے لیے پورا نظام کی رول بیک کرنے کی باتیں کی جا رہی ہیں،18 وی ترمیم نے جہاں آئین کو اپنی اصل حالت میں بحال کیا وہاں صوبوں کو مالی خودمختاری بھی دی ہے جس سے ان کا احساس محرومی ختم ہوا ہے
پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں نیم صدارتی نظام بھی رائج رہا ہے اور پارلیمانی جمہوریت کو کبھی فری ہینڈ نہیں دیا گیا لیکن اس آڑ میں ڈکٹیٹر شپ رائج کرنا پاکستان جیسے سیاسی حالات کے لیے کسی صورت مناسب نہیں ہے،یہاں فرد واحد کے فیصلوں نے کئی بلنڈرز کیے ہیں
کچھ لوگ پاکستان میں ایوب خان،ضیا الحق اور مشرف کے دور میں پاکستان کی بہتر مالی پوزیشن کے گرافس اٹھا کر اس کے حق میں بیان دیتے ہیں لیکن اگر تاریخ پہ نظر دوڑائی جائے تو پتا لگتا ہے کہ پہلے سیٹو،سینٹو اور امریکہ کے کیمپ میں ہونے کا فائدہ پاکستان کو ڈالرز کی صورت میں ایوب خان کے دور میں ملا،پھر کمیونسٹوں اور سویت یونین کیخلاف جنگ میں ضیا الحق کے دور میں بھی ہمیں کرائے کے قاتلوں کے طور پہ استعمال کیا اور بدلے میں ڈالرز ملے ،پھر جب ملک میں ضیا الحق کی موت کے بعد جمہوریت نے دوبارہ آنکھ کھولی تو جوہری اثاثے بنانے کے الزام میں Pressler Amendments  کی مد میں ہماری ساری امداد روک دی گئی اور یوں جمہوری حکومتوں میں 2001 تک کوئی خاطر خواہ امداد نہیں ملی،تاریخ نے پھر پلٹا کھایا اور 9/11 کے بعد دہشت کیخلاف جنگ نے ہمیں امریکہ سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا موقع ملا اور ایک دفعہ پھر پاکستان میں ڈکٹیٹر  کا راج تھا محتصرا یہ مالی ترقی و خوشحالی اس اس وقت ہوئی جب امریکہ کسی جنگ میں پھنسا ہوا تھا اور اسے ہماری مدد درکار تھی اور ہمیں اس کے ڈالرزاس آڑ میں پورے سسٹم کو رول بیک کرنے کے بجائے اگر موجودہ سسٹم کی خرابیاں دور کی جائیں تو معاملات بہتر حل ہو سکیں گئے اور ویسے بھی 3 لگاتار جمہوری حکومتوں کی خوش اسلوبی سے منتقلی نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کے لیے ترقی کی امید جگائی ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :