قانون کون سا؟

بدھ 7 جولائی 2021

Asif Rasool Maitla

آصف رسول میتلا

یہ تو ایک طے شدہ بات ہے کہ محبت ایک ایسی چیز ہے  جو کہ اللہ تعالٰی کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے۔ اور یہ اللہ  تعالٰی کی طرف سے ہے کہ جس کے چاہے دل میں محبت رکھ دے ورنہ انسان کو لاکھ سمجھالو یا وہ سمجھنے کی کوشش بھی کرے تو وہ محبت نہیں کر سکتا۔مگر اللہ انسان میں محبت کا عنصر رکھ دیتا ہے۔
اس کی خصلت میں شامل ہو جاتا ہے کہ سر تا پاؤں اس کی مسکراہٹ سے لیکر چال تک محبت چھلکتی ہے۔

اللہ نے اس کائنات پر محبت اور پیار  سے رہنے کے کچھ اصول بنا دیئے اور وہی اصول جو قانون قدرت کہلاتے ہیں۔ انسان انہی پر عمل کرتا ہے تو وہ بھلائی کی طرف جاتا ہےاگر نہیں کرتا تو نقصان کی طرف۔ اللہ تعالٰی نے محرم اور نا محرم کا قانون دیاغیر عورت کو ہاتھ لگانا تو کیا بات بھی نہیں کر سکتے مگر جب قانون قدرت کے تحت نکاح میں آئے تو سب کچھ۔

(جاری ہے)

اور کامیاب لوگ وہی ہیں جو قانون کی پابندی کرتے ہیں اپنی مقررہ حدوں میں رہتے ہیں۔


جو لوگ خلیجی ممالک یا یورپ میں رہتے ہیں وہ تو خاص  طور پر اور جو لوگ کچھ عرصے کے لئے وزٹ کرتے ہیں وہ عام طور پر جانتے ہیں کہ کون سی لائن کراس کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ترقی یافتہ ممالک میں قانون نافذ کرنے والے ایک آفس میں بیٹھ کر کنٹرول کرتے ہیں۔مثلاْ آپ نے گاڑی چلاتے وقت زیبرا کراسنگ کی لائن کو کار روکتے وقت ٹچ بھی کیا تو جرمانہ ہے۔

پیلی،سبز اور سرخ بتی کا خیال نہ کیا تو آٹومیٹک کیمرہ کا فلش چلتا ہے اور آپ کے موبائل پر ایس ایم ایس آ جاتا ہے کہ ابھی آپ نے غلط کراس کیا لہذا یہ جرمانہ ہے۔
پچھلے دنوں سوشل میڈیا جو کہ ایک بے لگام گھوڑے کی طرح ہے جو مرضی دکھا دو خاص طعر پر پاکستان میں کوئی پوچھتا تک نہیں۔ ایک تصویر وائرل ہوئی کہ بارڈر پر سیکیورٹی فورسز نے کچھ سیاحوں کو مرغا بنا رکھا ہے اور غصہ اسوقت آیا کہ جب میرے ایک پڑھے لکھے دوست نے لکھا کہ کس قانون کے تحت یہ سیکیورٹی والے سزا دے رہے ہیں بلاں بلاں۔

۔
ہماری منہ زور قوم جو کرتی زیادہ ہے مگر سوچتی نہیں کہ ٹھیک کر رہے ہیں یا غلط بس کرنا ہے۔ جن صاحب کو مرغا بنایا ان کو دس بار کہا کہ بیٹا یہاں پر سرخ لائن ہے آگے مت جاؤ یہاں کھڑے ہوکر تصویر بنانا منع ہے مگر نہیں ۔بورڈ پر ہدایات کو بھی ان دیکھا کر دیا اب سزا دی تو کونسا قانون۔
پاکستان کے وزیراعظم صاحب کو گھر بجھوادیا جاتا ہے نوے دن چھ لوگ تحقیقات کرتے ہیں ، چھ ماہ تک سپریم کورٹ کے اعلٰی ترین منصب پر بیٹھے جج اس کو نا اہل کرتے ہیں مگر ہم یہ نہیں سوچتے کہ محترم وزیراعظم  صاحب کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکے کہ اتنی دولت کہاں اور کیسے آئی۔

جب کہ ہم کو پتہ ہے کہ حضرت عمر سے ایک کرتے کا حساب بھی مانگا تو انہوں نے فورٓا جواب دیا مگر یہاں تو معاملہ ہی کچھ اور ہے بس یہ کہا جا رہا ہے کہ کس قانون کے تحت نکالا۔۔۔۔۔کیوں نکالا؟
پھر میں پوچھتا ہوں کہ عدالت فیصلہ سناتی ہے اور وہ فیصلہ قانون پر ہوتا ہے مگر وہ وکیل جو کہ وکیلوں کا نمبردار ہے وہ بھری عدالت میں قانون کی پابندی تو کیا اخلاقیات سے گر جاتاہے اور اسی سوشل میڈیا نے بتا دیا کہ ایک پڑھے لکھے کالے کوٹ والے طبقےنے کس اعلٰی ظرفی کے ساتھ گالیاں دیں۔

عدالت کے دروازے توڑے اور ملک کا نقصان  الگ مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ  کس قانون کے تحت مگر جواب ندارد۔
اندرون سندھ ایک 5 سال کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ جیل میں بند دیکھا پتہ چلا کہ اس بچے نے قتل کیا ہے اس پر دفعہ 302 کا پرچہ کٹ گیا ہے اور قیدی اکیلا نہیں رہ سکتا تھانے والے اس کے رونے سے پریشان ہوتے ہیں اس لئے اس کے ساتھ اس کی ماں کو بھی بند کر دیا ہےتاکہ تھانے میں شوروغل نہ ہو اور قانونی کاروائی بھی ہو مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کس قانون کے تحت۔

ایک وڈیرہ، ایم پی اے یا ایم این اے کے وارنٹ بھی عدالت جاری کرتی ہے اور تھانیدار آکر عدالت میں کہتا ہے کہ ملزم ملا نہیں اس لئے گرفتار نہیں کر سکا مگر وہ ہر ٹی وی چینل اور میڈیا پر نظر آتا ہے کہ اس کی سرگرمیاں کیا ہے مگر حاصل ندارد مگر پھر کس قانون کے تحت۔اس کے بہت خطرناک نتائج آئے گے جب ہماری سوچنے اور سمجھنے کی حس ختم ہوتی جائے گی تصویر کے دونوں رخ جب تک نہ دیکھیں گے جو ہمیں اچھا لگے وہ سمجھ جاتے ہیں جو برا لگے وہ کسی اور کا آج وہی حاصل ہو رہا ہے۔


للہ تعالٰی سورہ نمبر4 آیت نمبر 26 میں ارشاد فرماتا ہے :'اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک)لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے'اللہ ہمیں اپنے بنائے ہوئے قانون، اچھے اور برے میں پہچان کی توفیق دے۔ آمین

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :