ہمارے معاشرے کا المیہ

ہفتہ 5 جون 2021

Asifa Amjad Javed

آصفہ امجد جاوید

بیٹی زحمت نہیں رحمت ہے ہمارے معاشرے میں آج بھی بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بیٹیوں کی پیدائش پر روتے ہیں اور کچھ مرد بھی ان میں شامل ہیں بیٹی کی پیدائش کا سن کر وہ چپ سادھ لیتے ہیں  ہم کیوں نہیں اپنا مائنڈ سیٹ بدلتے ہمارے معاشرے میں عورت کو کمزور اور مرد کو کیوں بہادر کہا جاتا ہے؟ کیوں عورتوں کی اُس طرح عزت نہیں کی جاتی جس کی وہ حقدار ہیں اگر دیکھا جائے تو عورتیں بھی مردوں سے پیچھے نہیں ہیں وہ ہر طرح کے حالات سے لڑنے کے لیے, محنت کرنے کے لیے تیار ہوتی ہیں محنت کرنے میں وہ عار محسوس نہیں کرتیں دوسری طرف اگر عورت حق, سچ کا ساتھ دے غلط کو غلط کہے تو ان کو دوسرا جملہ یہ سننے کو ملتا ہے یہ بہت زبان دراز ہے
" ہمارے معاشرے میں عورت کے زبان دراز ہونے پر تو سب شکوہ کرتے ہیں مگر کوئی گھونگی عورت سے شادی بھی نہیں کرتا"  اور جو عورت اپنے حق کے لیے آواز نہ اُٹھائے اس کو اللہ میاں کی گائیں قرار دیا جاتا ہے آخر ہمارے معاشرے کے لوگ چاہتے کیا ہیں اللہ تعالیٰ نے عورت اور مرد دونوں کو افضل بنایا ہے ہر انسان کے اندر صلاحیتیں پیدا کی ہیں تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائے ہر انسان کو زندگی گزارنے اپنے حق کے لیے آواز اُٹھانے کا حق ہے اگر دیکھا جائے تو مشکل وقت میں والدین کے کام بھی ایک عورت ہی آتی ہے,شوہر کا ساتھ بھی ایک عورت ہی دیتی ہے, شوہر کے والدین کی خدمت بھی ایک عورت ہی کرتی ہے اگر کوئی عورت محنت کرنے کے لیے گھر سے باہر نکلتی ہے تو لوگوں کی بُری نظروں کو بھی ایک عورت ہی برداشت کر رہی ہوتی ہے ہم کیوں نہیں دوسروں کی بیٹیوں,بہنوں کو اپنی بیٹیوں, بہنوں کے برابر سمجھتے جس دن ہمارے معاشرے میں لوگ باہر کی عورتوں کی عزت کرنا شروع کریں گے ان کے گھر کی عورتوں کو اس سے زیادہ عزت ملے گی لہذا خود بھی خوش رہیے دوسروں کو بھی رہنے دیجئے خود بھی عزت کیجئے اور دوسروں سے بھی وصول کیجئے.


آخر میں صرف اتنا کہوں گی:  
 بیٹیاں ہر کسی کے مقدر میں کہاں ہوتی ہیں
گھر جو خدا کو پسند آئے وہاں ہوتی ہیں

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :