تعلیم ذہنی ارتقاء کا وسیلہ کیوں نہ بن سکی؟

پیر 4 مئی 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

یکم مئی کی صبح خیبر پختون خوا کی،دوسری بڑی اور قدیم درسگاہ ،گومل یونیورسٹی کی45ویں سالگرہ(Foundation Day) منائی گئی،اس موقعہ پہ وائس چانسلر نے اپنے آن لائن پیغام میں کہا کہ ہم اس عظیم درسگاہ کو اپناکھویا ہوا مقام واپس دلانا چاہتے ہیں۔ہم نئے وی سی کے نیک ارادوں کو خوش آمدید کہنے کے باوجود ابھی امید کی روشنی سے بہت دور جہالت کی اُس تاریکی میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں جس نے ہماری روح کا احاطہ کر رکھا ہے،کاش کوئی ایسا مسیحا نمودار ہو جائے جو ہماری مادر علمی کو تعصبات کے گہرے دلدل سے نکال کے اسے پھر سے علم کی ارض معمور بنا دے اور یہ عظیم درسگاہ ایک ایسے نیر رخشاں کے طلوع کا باعث بنے جسکی روشنی میں ہم علم انسانی کی حدود معلوم ہو سکیں۔

مگر افسوس کہ غلط قدردانیوں کی بدولت مدت تک یہاں بے ثمر تخیلات پلتے رہے اور یہ اُنہی غلطیوں کے بادل ہیں جو ہمہ وقت ہماری علمی زندگی کو وقف اضطراب رکھتے ہیں۔

(جاری ہے)

بلاشبہ طویل عرصہ بعد یہ بدقسمت یونیورسٹی لمحہ بھر کیلئے نسلی،لسانی اور سیاسی اضطراب کی کیفیت سے نکل کے اک گوناں سکون سے ہم آغوش ہوتی دیکھائی دی ہے،بھلے عارضی طور پہ ہی سہی لیکن نفرتوں سے مملو جدلیات کی وہ تابکاری لہریں قدرے تھم سی گئی ہیں جنہوں نے اس مادر علمی کی زرخیز مٹی کو بنجر بنا دیا ہے۔

اس کایا کلپ کی فوری وجہ تو لاک ڈاون کی جبریت تھی جس نے متحارب گروپوں کو اپنی کمیں گاہوں میں سمٹنے پہ مجبور کر دیا،دوسری نئے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخاراحمد کی تقرری بھی اس عارضی سیزفائر کا سبب بنی ہو گی،جن کی استعداد ذہنی اورفطری رجحانات کو جانچنے کیلئے گھات میں بیٹھے عناصر کو کچھ وقت درکار تھا۔اگرچہ ڈاکٹر افتخار احمد نے بھی اپنی پہلی اننگ کا آغاز گروہی جدلیات سے اوپر اٹھ کے کیا لیکن گومل یونیورسٹی کو لسانی تعصبات،گروہی کشمکش،اخلاقی بے راہروی اورمعاشی مشکلات کے دلدل سے نکالنے کی جتنی سنجیدہ کوشش سابق وائس چانسلر ڈاکٹر سرورچوہدری نے کی،ایسی جرات مندانہ مساعی کوئی اور نہیں کر پائے گا۔

خیبر پختون خوا کے ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھی متعصب اشرافیہ کی چیرادستیوں کی بدولت ایک پنجابی وائس چانسلراس بدقسمت ادارے کے تعلیمی معیار اور اخلاقی ماحول کو بہتر تو نہ بنا سکا لیکن انہوں نے اپنی گہری حکمت عملی کے ذریعے یونیورسٹی کے اندربرسر پیکار دونوں گروپوں کی کمر توڑ کے اپنے جانشین وائس چانسلر کے راستہ کی مشکلات کم کر دیں۔

تین سال قبل ڈاکٹرسرور نے جب گومل یونیورسٹی کا چارج سمبھالا تو انہیں مشورہ دیا گیا تھا کہ وہ خٹک گروپ کو ساتھ ملا کے وسیع تر اصلاحات متعارف کرائیں لیکن ان کے مخالف بنوچی گروپ نے گورنر ہاوس اور ایچ ای ڈی میں بیٹھے اپنے ہم خیال ساتھیوں کی مدد سے ڈاکٹر سرور چوہدری کو اتنا بے بس کر دیا کہ پہلے سال تو وہ سینٹ کا اجلاس بلاسکے نہ رولز ریگولیشن منظور کرانے میں کامیاب ہوئے حتی کہ وائس چانسلر کو یونیورسٹی کا بجٹ تک منظور کرانے کی مہلت نہ ملی،بلآخر تھک ہار کے انہوں نے بنوچی گروپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کے کام کرنے کی راہ تو نکال لی لیکن اسکی قیمت انہیں یہ دینا پڑی کہ وہ خٹک گروپ کی حمایت سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

خٹکوں کے ناراض دھڑے نے مقامی مہم جووں کے ساتھ ملکر کامل دو سال تک ان کے خلاف احتجاجی تحریک برپا رکھ کے یونیورسٹی کے تعلیمی ماحول کو پراگندہ کر دیا لیکن فعال بنوچی لابی کی معاونت سے ڈاکٹر سرور چوہدری نے نہ صرف یونیورسٹی کے قوائد و ضوابط(Statutes )منظور کرا لئے بلکہ سنڈیکیٹ کے چار اجلاس منعقد کر کے گروہی کشمکش میں ملوث کئی نمایاں پروفیسرز کو برطرف کرکے مزاحمتی تحریک کا سر کچل دیا،مگر افسوس کہ گھمسان کی اس لڑائی میں کئی ادنی اہلکار بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جن کی اکثریت مقامی لوگوں پہ مشتمل تھی۔

بہرحال،ڈاکٹر سرور چوہدری نے لا کالج، ڈی وی ایم اور دیگر شعبوں میں نشستیں بڑھا نے کے ساتھ ہی پنجاب،سندھ اور بلوچستان کے طلبہ کو داخلے دیکر ریونیو بڑھایا تو یونیورسٹی مالی بحران کے چنگل سے باہر نکال آئی۔سابق وائس چانسلرکے آخری ایام میں مخالف لابی نے 98 ویں اور99 اجلاس کو متنازعہ بنانے کے علاوہ سنڈیکیٹ کے 100ویں اجلاس پہ عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر لیا لیکن اس کے باوجود جاتے ہوئے ڈاکٹر سرور صاحب نے غیر منعقد اجلاس کے منٹس جاری کر کے بنوچی گروپ کے سرخیل دلنواز خان کو اکیسویں گریڈ میں پرموٹ کر دیا اور یہی پیش دستی اس کشمکش کا واٹرلو ثابت ہوئی،حالانکہ گریڈ اکیس میں ترقی پانے والے ایڈمن افیسر دلنوازخان کے خلاف چانسلر کی انکوائری شروع تھی اورڈاکٹر سرور نے خود اسے معطل کر کے تین ماہ کیلئے یونیورسٹی میں ان کا داخلہ بند کر کے اس گروہی جنگ کی بساط لپیٹی تھی۔

انکی یہ متنوع حکمت عملی جو بظاہر متضاد دیکھائی دیتی تھی،حیرت انگیز طور پہ اپنے نتائج کے اعتبار ایک مربوط مساعی ثابت ہوئی ہے۔تاہم اب بھی گومل یونیورسٹی علمی،انتظامی،معاشی اور اخلاقی زوال جیسے کئی پیچیدہ مسائل میں گھیری ہوئی ہے جس کو سلجھانے کیلئے اعلی پائے کے منتظم اور ذہنی لچک کے حامل ایسے مدّبر وائس چانسلرکی ضرورت ہے،جو خود کو اس علاقائی اور لسانی پولرآئزیشن نے الگ رکھنے کے علاوہ اس جہالت عمومی کا احاطہ کر سکیں،جس نے پچھلے پینتیس سالوں سے اس درسگاہ کی اجتماعی ذہانت کو اپنے خونی پنجوں میں دبوچ رکھا ہے۔

علمی درسگاہوں کے وہ اہلکار جو عقل و دانش اور نیکی کا تجربہ نہیں رکھتے ہمیشہ غیرفطری دلچسپیوں میں مصروف رہتے ہیں،ظاہر ہے وہ ادنی سطح پہ اتر آتے ہیں اورعمر بھر اسی سطح پہ رہتے ہیں،انہوں نے سچائی کی طرف آنکھ اٹھا کے دیکھا نہ کبھی بلند اٹھے کی کوشش کی نہ کبھی دائمی مسرت سے ہم کنار ہوئے بلکہ جانوروں کی طرح اپنی نگاہیں زمین پہ لگائے جھکے رہتے ہیں اور ان غیر فطری دلچسپیوں کی کم نہ ہونے والی ہوس میں لوہے کے سینگھوں سے ایک دوسرے کو ٹھکریں مارتے رہتے ہیں اور اگر انکی خواہشیں پوری نہ ہوں تو ایک دوسرے کو برباد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

علی ہذالقیاس،گومل یونیورسٹی کے نئے وائس چانسلر ڈاکٹر افتخار کے ساتھ ایک مختصر سی نشست میں مجھے ان کی ترجیحات کو جانچنے کا پورا موقعہ تو نہیں ملا،تاہم سرسری گفتگو سے یہی اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی پہلی ترجیح اخلاقی مفاسد پہ قابو پانا ہو گی تاکہ اس تعلیمی ادارے کی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کیا جا سکے۔چارج لیتے ہی انہوں نے پہلا کام یہی کیا کہ یونیورسٹی کے تمام دفاتر کے دروازوں میں شیشے لگوا کر انہیں ہر کسی کیلئے دیکھائی دینے والہ بنا دیا،ایک یوٹیوب چینل کو دیئے گئے انٹرویو میں بھی انہوں نے جنسی سکنڈل میں ملوث اہلکاروں،خاصکر رنگے ہاتھوں پکڑے جانے والے اسلامیات کے پروفیسر،کو عبرت کا نمونہ بنانے کا عندیہ دیا چنانچہ یکم مئی کی صبح جس دن اساتذہ اور طلبہ گومل یونیورسٹی کا آن لائن فاونڈیشن ڈے منا رہے تھے عین اسی وقت کینٹ پولیس ایس ایچ او صابر بلوچ کی مدعیت میں سٹی کیمپس کے ڈائریکٹر اور شعبہ اسلامیات کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین کے خلاف جنسی ہراسانی کا مقدمہ درج کرکے مشتبہ عناصر کو واضح پیغام بھیجوا رہی تھی۔

پروفیسر صلاح الدین کے مخصوص مقدمہ کی تفتیش شروع ہوئی تو اس میں کئی پردہ نشینوں کے سیاہ کارنامے اور روشن چہرے سامنے آ سکتے ہیں۔قصہ کوتاہ،اس میں دوسری رائے نہیں کہ ہمارے مسائل کی جڑیں انسانی مواد کی زوال پذیری میں پیوست ہیں،انسانوں کے سوا کارخانہ قدرت کی ہر چیز درست کام کر رہی ہے،بگاڑ صرف ہماری شخصیتوں میں پیدا ہوا،چنانچہ جب تک اعلی تعلیمی ادارے بہترین رجال کار فراہم کرنے قابل نہیں ہوتے اس وقت ہیومین ڈیولپمنٹ کا تصور محال رہے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :