نئے سیاسی موڑ

جمعرات 20 اگست 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

تیزی کے ساتھ بدلتے ہوئے عالمی حالات کے تناظر میں ہماری قومی سیاست بھی کوئی نیا موڑ مڑنے والی ہے،جس کے عمیق اثرات ملک کی داخلی سیاست پہ نمایاں ہونے لگے ہیں،ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگلے چند ماہ میں نواز لیگ کو میدان سیاست میں کچھ گنجائش مل جائے گی،لاہور میں مریم نواز کی نیب میں پیشی کے دوران اچانک پیدا ہونے والی ناخوشگوار صورت حال اسی امر کی غماض تھی کہ لیگی قیادت کو خوف سے آزادی مل گئی اور وہ شکست کی گرد جھاڑ کے ایک بار پھر میدان عمل میں اترنے والی ہے تاہم اس نئی سکیم کو روبعمل لانے کے لئے جس قسم کی سیاسی فضا درکار ہو گی اس ماحول کو بنانے میں مولانا فضل الرحمٰن کا کردار زیادہ اہم ہو گا۔

بلاشبہ،مولانا صاحب اپنی طلاقت لسانی سے عوام کو متحرک کرنے کی صلاحیت کے علاوہ مزاحمتی سیاست کا طویل تجربہ بھی رکھتے ہیں لیکن اس وقت اُلجھن یہ ہے کہ ماضی قریب میں اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ نے اپنے طرز عمل سے جس طرح مولانا فضل الرحمٰن کا اعتماد کھویا اسکی بحالی قدرے مشکل کام ہو گی۔

(جاری ہے)

امر واقعہ بھی یہی ہے کہ پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کی قیادت خود تو طاقت کے مراکز کے ساتھ ٹکرانے سے ہچکچاتی رہیں لیکن جمعیت علماء اسلام کی مقتدرہ کے ساتھ پنجہ آزمائی کو اپنے حق میں استعمال کرنے میں کبھی حجاب محسوس نہ کی،گزشتہ دو سالوں کے دوران جب بھی طاقت کے مراکز پہ دباو بڑھانے کی ضرورت پڑی تو انہوں نے مولانا صاحب کے ذریعے گورنمنٹ مخالف تحریک اٹھانے کی سرگرمیوں کو مہمیز دے کے اپنی سیاسی بارگینگ کی پوزیشن کو مضبوط بنا لیا،پھر جُونہی انہیں کچھ آسودگی ملی وہ دل پہ کوئی بوجھ لئے بغیر مسکراتے ہوئے پیچھے ہٹ گئے۔

پچھلے دسمبر میں بھی جے یو آئی کے اسلام آباد دھرنا کے دوران دونوں بڑی جماعتوں کا خود غرضی پہ مبنی یہی طرز عمل ایسی بے یقینی کا مظہر تھا جس نے ایک طاقتور سیاسی سرگرمی کو بے اثر بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔چنانچہ اب مولانا فضل الرحمن نے بھی نواز لیگ اور پی پی پی کی مجوزہ اے پی سی میں شمولیت کو چند اصولی ضمانتوں کے ساتھ مشروط کر دیا۔

مولانا فضل الرحمٰن کو رام کرنے کی خاطر پہلے شہباز شریف نے اسمبلی فلور پہ کھڑے ہو کے ان سے معافی مانگ کے ماضی کی غلطیوں کے ازالہ کی کوشش فرمائی اور پھر مریم نے بھی نواز شریف کی ایما پر ہر قیمت پہ مولانا صاحب کو راضی کرنے کا عندیہ دیکر کسی نئے سیاسی سفر کی تمہید بتا دی۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے تمام تر شَکر رنجیوں کے الرغم ایک عملیت پسند سیاستدان کی طرح، مطلقاً قطع تعلق کرنے کی بجائے،دونوں بڑی جماعتوں کو انگیج رکھا کیونکہ مولانا صاحب جانتے تھے کہ سیاسی امور میں گہرے اختلافات کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ بامقصد تعلقات ہی انکی اصل طاقت ہیں،اس لئے انہوں نے دوستوں کے ہاتھوں دکھ جھیلنے کے باوجود بھی چوہدری برادران سے ذاتی مراسم ختم نہیں کئے اور یہی رویہ ان کی وسعت ذہنی کا مظہر اور دلیرانہ اسلوب کی علامت سمجھا جائے گا،بلاشبہ یہ ایک بالغ النظر سیاستدان کا ایسا سنجیدہ طرز عمل تھا جو مستقبل میں ہماری قومی سیاست کا سرمایا افتخار ثابت ہو گا۔

اس حقیقت کو ہم سب جانتے ہیں کہ اقتدار کی سیاست ایسا رواں عمل ہے جسمیں کوئی بات حرف آخر نہیں ہوتی بلکہ یہاں سیاست کے ہر کردار کوگردش دوراں ہی ایک دوسرے سے قریب اور دور کرتی رہتی ہے،ہم دیکھ رہے ہیں کہ وقت کی صرف ایک ہی کروٹ نے سارا منظرنامہ بدل ڈالہ،حکمراں اشرافیہ کے وہ لوگ جو کل تک مولانا فضل الرحمن کو پاور پالیٹکس کے اکھاڑے سے باہر رکھنے کو اپنی کامیابی تصور کرتے تھے آج وہ کف افسوس ملتے ہوئے کہتے ہیں،کاش مولانا صاحب پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوتے تو ہمیں سیاسی اصلاحات اور کشمیر ایشو پہ اسقدر شدید مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا فضل الرحمن اصولی طور پہ سیاسی اصلاحات کے حامی اور مسلہ کشمیر کے پُرامن حل کے بہترین وکیل رہے ہیں لیکن موجودہ حکومت نے مملکت کی سلامتی بلکہ پورے جنوبی ایشیا کے مستقبل سے جڑے کشمیر جیسے اہم ایشوز کے حوالہ سے ہونے والی مبینہ پیش رفت سے عوام کو بے خبر رکھنے کے علاوہ قومی قیادت کو لاتعلق کرنے کا جو وطیرہ اپنایا وہ پسندیدہ عمل نہیں تھی،مولانا فضل الرحمن کو دراصل اسی رویہ سے شدید اختلاف رہا ہے،بلاشبہ قومی ایشوز پہ ملکی قیادت کو اعتماد میں لیکر اجتماعی دانش کو بروکار لانے سے گریز کی روش نے ہی عمران خان کو تنافر کا نمائندہ بنا دیا۔

اگر وہ روایتی میل جول کے ذریعے سیاستدانوں کو انگیج رکھتے تو انہیں اپنے نصب العین کے حصول میں سہولت ملتی لیکن اسی جنون استرداد نے انہیں بتدریج تنہا کر دیا۔البتہ اس پوری سیاسی جدلیات میں پی پی پی کی سوچ کچھ ایسی حقیقت پسندانہ واقع ہوئی جو پوری طرح اپنے مفادات کے محور میں گھومتی دیکھائی دی۔بلاشبہ،موجودہ سیاسی بندوبست کی سب سے بڑی بینفشری ہونے کے ناتے پیپلزپارٹی ہمیشہ سسٹم کو بچانے کی تگ و دو میں سرگرداں رہی،اس لئے جب بھی اپوزیشن جماعتوں نے وفاقی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش شروع کی پیپلزپارٹی نے آگے بڑھ کر اپنے مخصوس طریقہ کار کے وسیلے اسکی رخ گردانی کو فرض عین سمجھا،اس کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ آصف علی زرداری نے اب محض عوامی طاقت کے وسیلے اقتدار تک رسائی کی راہ ترک کر کے طاقت کے مراکز کے ساتھ براہ راست لین دین کے ذریعے ایوان اقتدار تک پہنچنے کی پالیسی اختیارکرکے اپنی رہی سہی پارلیمانی قوت کو بچانے کے علاوہ پارٹی قیادت پہ گرفت مضبوط کر لی،دوسرے وہ اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ مسلم لیگ نواز ہی اس کی اصل حریف(Main competitor ) ہے جو عالمی اور مقامی مقتدرہ کے ساتھ گٹھ جوڑ کے ذریعے ایوان اقتدار تک رسائی پانے کی پوری صلاحیت رکھتی ہے اس لئے انہوں نے ہمیشہ نواز لیگ کو اسٹبلشمنٹ کے خلاف صف آراء رکھنے کی خفیہ و اعلانیہ سکیم میں ہی اپنا مفاد تلاش کیا۔

سنہ دوہزار اٹھارہ کے انتخابات کی طرح اس وقت بھی مسٹر زرداری کی خواہش یہی تھی کہ نواز لیگ کو مقتدرہ کے ساتھ ٹکروا کے بلاول بھٹو کے لئے وزارت اعظمی تک پہنچنے کی راہ ہموار بنائی جائے لیکن اس ضمن میں شہباز شریف ان سے زیادہ چالاک ثابت ہوئے ہیں،چھوٹے میاں نے بلاول بھٹوکی جانب سے دی جانے والی تمام ترغیبات کے باوجود مقتدرہ کے ساتھ تصادم سے گریز کی راہ اپنا کر بلآخر اپنی جماعت کے لئے تیسری بار مسند اقتدار تک پہنچنے کی راہ ہموار بنا لی۔

حالات کے تیور بتاتے ہیں کہ نواز لیگ نے بائیں بازو کی عالمی مقتدرہ کی وساطت سے ملکی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ اپنی تلخیاں کم کرکے بند گلی سے نکلنے کی راہ ڈھونڈ لی ہے ،شاید اسی لئے مرکزی دھارے کے میڈیا میں نہایت پراسرار انداز میں مریم نواز کی پُرموشن کی راہیں کشادہ ہونے لگی ہیں اور اسٹبلشمنٹ کو للکارنے والی سویلین بالادستی کی علمبردار مریم بی بی نے بھی پوزیشن تبدیل کر کے اپنی تنقید کا روئے سخن صرف پی ٹی آئی گورنمنٹ کی طرف پھیر دیا۔

بظاہر یہی لگتا ہے کہ عالمی سطح پہ ابھرنے والی وسیع پیراڈائم شفٹ کا سب سے زیادہ فائدہ نواز لیگ اور اسکے بعد جے یو آئی(ف) کو پہنچے گا،حتی کہ سیاسی تغیرات کی یہ نئی لہر مولانا فضل الرحمن کی اس ابتدائی جدوجہد کو بھی کارآمد بنا دے گی جسے ہم رائیگاں تصور کرتے تھے۔تاہم مریم نواز کی تازہ انٹری نے تحریک انصاف سے زیادہ پیپلزپارٹی کی لیڈر شپ کی پریشانیاں بڑھا دی ہیں۔بظاہر یہی لگتا ہے کہ سیاست کی نئی مہمات میں پیپلزپارٹی کا کردار مزید محدود ہوتا جائے گا اور شاید سندھ سے بھی جے یو آئی سمیت کئی نئی سیاسی طاقتیں اس کے سامنے سر اٹھا لیں گی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :