تہذیبوں کا عروج و زوال

ہفتہ 10 اکتوبر 2020

Aslam Awan

اسلم اعوان

پچھلے ہفتہ ڈیرہ اسماعیل خان شہر سے ساٹھ کلو میٹر شمال کی جانب کوہ سرخ کے دامن میں آباد کوٹلہ لودھیان گاوں کے گورنمنٹ پرائمری سکول سے ملحقہ اراضی میں موسمی شجری کاری کی کھدائی کے دوران بدھا کی مورتیاں اور زمانہ قبل مسیح کے سکوں سمیت پتھر سے بنی نادر اشیا برآمد ہوئی ہیں،جس کے بعد اس خطہ نے ایک بار پھر ماہرین ارضیات کی توجہ حاصل کر لی ،اسی جگہ پہ کم و بیش ایک مربع کلو میٹر پہ محیط ستّر فٹ اونچے ٹیلہ پہ کوٹلہ لودھیان نامی جو گاوٴں آباد ہے،ماضی میں یہ ہندو شاہی کے مرکز بلوٹ کا مضافاتی ٹاون تھا۔

آئین اکبری کے علاوہ ڈاکٹر عبدالحلیم نے اپنے پی ایچ ڈی مکالہ (1945)میں ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ بلوٹ شریف کو لودھیوں کا اصل بتایا۔
(Lodi Sultans of Dilly and Agra-by Dr Abdul Haleem) مشہور محقیق میجر راورٹی نے بھی لکھا ہے کہ دہلی کے سلطان ابراہیم لودھی کے اجداد ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقہ کوٹلہ لودھیان سے نکل کے ہندوستان کے اقتدار اعلی تک پہنچے،(Notec on Afghanistan and Baluchistan by Maj H.G.Raverty ) ۔

(جاری ہے)

انڈین محقیق ڈاکٹرعبدالحلیم کے مطابق سلطان سبکتگین نے کوہ سلیمان کے دامن میں وسیع و عریض علاقہ پر قائم ہندوشاہی کی تسخیر کے بعد یہاں لودھی اور سوری قبائل کو آباد کیا،معروف محقیق کالکارنجن قانون گو نے اپنی کتاب”Sher Shah and his time“ میں لکھا ہے کہ فرید خان المعروف شیر شاہ سوری کے آبا و اجداد ڈیرہ اسماعیل خان میں دریا گومل کے کنارے آبادگاوٴں ٹکواڑہ سے نقل مکانی کر کے جنوبی بھارت کے شہر نارنول اور بعدازاں جونپور میں آباد ہوئے۔

سنہ 1970میں ڈیرہ اسماعیل خان سٹی سے بائیس کلومیٹر شمال مغرب کی جانب 3300 قبل مسیح کا شہر،رحمان ڈھیری،دریافت ہوا جو اس وقت تک ہندوستان میں ماضی کی گم گشتہ تہذیبوں کا قدیم ترین شہر سمجھا جاتا ہے،اس شہر کے آثار ہڑپا ،موہنجو دڑو اور مہر گڑھ سے زیادہ قدیم ہیں۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبر عبدالرحیم قریشی نے جیالوجیکل سروے آف انڈیا کے حوالہ سے دعوی کیا ہے کہ ہندووں کے دیوتا رام چند جی کی جنم بھومی ایودھیا نہیں بلکہ ڈیرہ اسماعیل خان کا علاقہ رحمان ڈھیری (رام ڈھیری) ہے۔

حیرت انگیز طور پہ ہندووں کی کتاب بھگوت گیتا اور رامائن میں رام چندر جی کو بن مانس دینے کے لئے ککی اور بھرت نامی جن دو علاقوں کا تذکرہ ملتا ہے،انہی ناموں سے موسوم دو قدیم گاوٴں ملحقہ ضلع بنوں میں پائے جاتے ہیں۔ہندوستان کے مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر نے اپنی خود نوشت”تزک بابری“میں ککی اور بھرت کو دشت لکھا ہے۔ابھی حال ہی میں ڈیرہ اسماعیل خان سے ساٹھ کلو میٹر مغرب کی جانب یارک کے علاقہ سے متصل گہری کھدائی سے برآمد ہونے والے آثار قدیمہ کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ یہی خطہ دراصل وادی سندھ کی تہذیب کا اصل مرکز تھا۔

محکمہ آثار قدیمہ کو ڈیرہ اسماعیل خان میں مدفن جن تہذیبوں کے آثار ملے ہیں وہ تمام عالمی تجارتی گزرگاہوں اور دریائے گومل یا پھر دریائے سندھ کے کناروں پہ آباد ہوئی تھیں۔کوہ سلیمان سے منسلک وسیع میدانی علاقوں،جنہیں ماضی میں مکل واد اور اب دامان کہتے ہیں،میں بہنے والے پانچوں چھوٹے دریا اور ان کی بتیس رودیں دریا سندھ میں گرتی تھی،یہ چھوٹے دریا جنہیں زام ٹانک، زام گومل،زام شیخ حیدر،زام درابن اور زام چودہوان کے نام سے پکارا جاتا ہے کسی نہ کسی شکل میں اب بھی موجود ہیں۔

دسویں صدی عیسوی میں بننے والہ قلعہ کافر کوٹ اور بارویں صدی کے لعل ماہڑہ کے پرشکوہ مزارات کے آثار شمالاً جنوباً بہنے والے دریا سندھ کے دائیں کنارے پہ ایستادہ ہیں لیکن رحمان ڈھیر، یارک اور ٹکواڑہ غرباً شرقاً بہنے والے دریا گومل کے بائیں کنارے پہ واقع ہیں۔دسویں یا گیارہویں صدی میں تعمیر ہونے والے قلعہ بلوٹ(جیسے مقامی لوگ کافرکوٹ کہتے ہیں) پندرویں صدی میں یہاں آنے والے بلوچوں کا مسکن بنا،پانی پت کی لڑائی سے قبل ظہیرالدین بابر نے بھیرہ کی ریاست کو فتح کرنے کے بعد جب قلعہ بلوٹ کی تسخیر ضروری سمجھی تو اُس وقت وہاں آخری بلوچ حکمران نصرت مقیم تھا،انہیں گرفتار کر کے جب بابر کے سامنے پیش کیا گیا تو نصرت خان کے بوڑھاپے کو دیکھ کر بابر نے انہیں معاف کر دیا۔

ڈیرہ اسماعیل خان سٹی سے چالیس کلومیٹر جنوب مغرب کی طرف واقع چودہوان میں مدفن قدیم شہر کے کھنڈرات سے عزیز مصر کے زمانہ کے سکے ملے ہیں،یہاں کے زمیندار آج بھی اپنے مزارعین سے ششک نامی وہ ٹیکس لیتے ہیں،جو فراعین مصر کبھی بنی اسرائیل سے وصول کیا کرتے تھے،شاید اسی لئے تاریخ فرشتہ کے مصنف کا خیال ہے کہ یہاں کا بابڑ قبیلہ قبطیوں یا پھر اسرائیلیوں کی گم گشتہ شاخ ہو گی۔

خود ڈاکٹر حسین بابڑ نے بھی اپنی کتاب”بابڑ قبیلہ کی تاریخ“میں چودہوان کے بابڑوں کو سامی النسل لکھا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ دریا نیل کے کنارے ابھرنے والا قدیم مصری تمدن،دجلہ و فرات کی سامیری تہذبیبں اور چین کی نو ہزار سال پرانی سول آئیزیشن سے پہلے ہندوستان کی گداز مٹی میں انسانی تہذیب اپنے خدو خال سنوارچکی تھی۔زندگی اور اس کائنات کی حقیقت سے ناواقف ہونے کے باوجود انسانی زندگی کا کٹھن سفر،جسے ہم تاریخ کے عروج زوال کی داستانوں میں دیکھتے ہیں، مصائب و آلام سے مزین ہونے کے الرغم نہایت گداز اور دلچسپ نظر آتا ہے،اگر ہم ماضی پہ نظر ڈالیں تو دنیا کی کئی پُرشکوہ تہذیبیں اور درخشندہ روایات ہمیں جگماتی نظر آئیں گی۔

ماضی کی مغموم نسلوں نے اپنی ذہنی آسودگی کے لئے پُرملال صنم کدے تعمیر کرائے اور دکھوں سے لبریز اس فانی زندگی کو دلچسپ بنانے کی خاطر کھیل،تہوار اور عیش و عشرت کے اسباب تخلیق کئے۔عظیم موٴرخ ول ڈیورانٹ نے لکھا ہے کہ ماضی کے انسانوں نے وہ سب کچھ حاصل کر لیا تھا جسکی اسے ضرورت تھی،آئندہ آنے والی نسلوں نے اس میں صرف تزائین و آرائش کا اضافہ کیا۔

اس نے لکھا کہ،جس دن آدمی نے بولنا سیکھا اسی دن تہذیب کی بنیاد پڑ گئی اور جس روز انسان نے آگ کو مسخر کیا اسی روز اس نے اپنے ماحول پہ تصرف پا لیا تھا۔تہذیبوں کے ارتقاء کا مطالعہ کرنے والے محقیقین کہتے ہیں کہ تہذیب کی افزائش کے لئے کوئی نسلی شرط عائد نہیں ہوتی،یہ کسی براعظم،کسی بھی رنگ و نسل اور پیکن،دلی،ممفس یا بابل،روبنا،لندن،پیرو یا یُکتیا میں پیدا ہو سکتی ہے۔

کوئی برتر نسل تہذیب کو پیدا نہیں کرتی بلکہ یہ عظیم تہذبیں تھیں جنہوں نے بڑی قوموں کو جنم دیا۔جغرافیائی اور معاشی حالات کلچر کو بیدار کرتے ہیں،پھر کلچر ایک نمونہ پیدا کرتا ہے،انگریزوں نے انگریزی تہذیب کو نہیں بلکہ تہذیب نے انگریز قوم کو تخلیق کیا،اس لئے وہ اسے ہمراہ لئے پھرتے ہیں اور مخصوص لباس پہن کے کھانا کھاتے ہیں۔جسمانی یا حیاتیاتی حالات تہذیب کی فقط پیشگی ضرورت ہیں وہ اسے متشکل نہیں کرتیں۔

بھوک اور محبت چونکہ انسان کی بنیادی ضروریات ہیں،اس لئے معاشی بہم رسانی اور حیاتیاتی بقاء سماجی تنظیم کے بنیادی وظائف ٹہھرے،یوں بچوں کی مسلسل پیدائش غذا کی فراہمی جتنی اہمیت کی حامل قرار پائی،خاندان کے اسی بنیادی ادارہ کے ساتھ جو مادی بہبود اور سیاسی نظم و ضبط درکار تھا،اسی میں معاشرہ نسل انسانی کے ادارے بھی شامل کرتا رہا،ریاست کے قیام سے پہلے پنچیت گروہوں اور نسلوں کے درمیان تعلقات کو ریگولیٹ کرنے فرض نبھاتی تھی۔

حتی کہ آج جب ریاست معاشرتی نظم و نسق کا موثر وسیلہ بن گئی پھر بھی نسل انسانی کی لازمی حکومت سب سے اہم تاریخی ادارے خاندان میں رہتی ہے ۔اہل دانش کہتے ہیں کہ خاندان ،عبادت گاہ اوراسکول کے ذریعے متحد کرنے والا ضابطہ اخلاق اور ذہنی تبادلہ کے لئے زبان کی وحدت کا ہونا لازمی ہے کیونکہ نیکی ہماری خواہشات میں نظم اور برادری ہماری ہمارے تعلقات میں نظم پیدا کرتی ہے۔بلاشبہ،آج اس عہد جدید میں ہمیں اس کائنات میں انسانی بالادستی کا جو ناقوس بجتا سنائی دیتا ہے،اس کی اساس ہزاروں سال قابل ماضی کے اس انسان کی جدوجہد پہ رکھی ہوئی ہے جس نے جبلی طاقتوں کے ذریعے زندگی اور کائنات کی تقہیم کی تھی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :