اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول (نواں حصہ)

اتوار 16 ستمبر 2018

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔۔ ۔۔یہ کیا ہوا؟ "ابو رغال" تمہارا سانس کیوں اکھڑ رہا ہے ۔۔۔۔۔تم نے تو وعدہ کیا تھا کہ تم مجھے کعبہ کا وہ حصہ دیکھاؤگے جہاں پر میرے ہاتھی محمود نے اپنی طاقت سے کعبہ شریف کو گرانا تھا مگر ابو رغال جو کعبہ کو گرانے اور راستہ دیکھانے آیا تھا وہ اب اس کے قدموں میں پڑا تڑپ رہا ہے یہ اللہ کا اپنے گھر کو بچانے کے لئے پہلا انتقام اور نشانی تھی کہ اگر کوئی سمجھے ؟ ابراہہ جو ایک سیاہ فام بلند اور مضبوط قامت جنگجو سردار اپنے کلیسا ء کی خاطر اللہ کے گھر کو گرانے آیا تاکہ اہل عرب ہر سال کعبہ شریف کی بجائے اسکے کلیسا ء کی زیارت کریں۔

مگر اسے کیا معلوم تھا کہ عزت وذلت کے فیصلے زمین پر نہیں آسمان پر ہوتے ہیں؟وہ جو اپنے سونے کے کلیسا ء کی خاطر اس پتھروں کے کعبہ کو گرانے کی خواہش کو تکمیل پہنچانے خود چل کر اس موت کے بھنور میں آیا تھا ۔

(جاری ہے)

اب اِسے انتظار تھا۔۔ رسولِ اعظم ﷺ کے جد۔۔ عبدالمطلب کہ شاید وہ آکر التجا کریں گے کہ دیکھو !میں اس کعبہ کا متولی ہوں میں اسکا نگران ہوں ہر سال اہل عرب یہاں آتے ہیں اور اسکی زیارت کیساتھ دُعا مانگتے ہیں دیکھو تم مجھ سے جو سونا چاندی زیورات اونٹ وغیرہ لینا چاہو لے لو مگر ہمارے اس کعبہ شریف کو مت گراؤ مگر اس جنگجو کی تو حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس سردار مکہ نے آکر کلام شروع کیا کہ" اے ابراہہ! میں تیرے پاس صرف اس لئے آیا ہوں کہ تیرے فوجیوں نے میرے اونٹوں پر قبضہ کر لیا ہے اپنے فوجیوں سے کہہ دے کہ میرے اونٹوں کو لوٹا دیں "اب یہ کہہ کر عبدالمطلب خاموش ہو گئے اور ابرہہ اپنے تخت پر بیٹھا اب اس انتظار میں تھا کہ شاید اب جنابِ عبدلمطلب کچھ اور کہیں ۔

۔اب کچھ بولیں ۔۔مگر جب کافی دیر تک سکوت رہا تو ابرہہ پوچھنے لگا ؟کیوں سردارِ مکہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہنا چاہتے ؟ عبدالمطلب خاموش۔۔۔اچھا کوئی اور درخواست ہو تو؟ مگر عبدالمطلب جو کہ اپنے مقام پر بیٹھے تھے اب کھڑے ہوگئے کہنے لگے" ابرہہ! مجھے اجازت دے میں نے جو کہنا تھا کہہ چکا" اب ابرہہ غصہ سے بھڑک اٹھا اور عبدالمطلب کو سامنے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا اے سردار قریش آج آپ کے اس طرز عمل کی وجہ سے آپکی عزت میرے سامنے خاک میں مل چکی آپ کو اپنے اونٹوں کی فکر ہے مگر کعبہ کی فکر نہیں اب عبدالمطلب نے اپنے کندھے پر ابراہہ کا رکھا دایاں ہاتھ ۔

نیچے کیااور وہ تاریخی فقرہ کہا جو آج تک ہر شخص کی زبان پر زد عام ہے" سن ابرہہ میں ان اونٹوں کا مالک ہوں مجھے ان اونٹوں کی فکر کرنی چاہیے اور ایک مالک اس گھر کا بھی ہے اب تو جان اور اس گھر کا مالک جانے ۔۔۔"یہ سننا تھاکہ ابرہہ آگ بگولہ ہوا حکم دیا میرا خیمہ بلند پہاڑ پر لگاؤ میں خود کعبہ کے انہدام کا نظارہ کروں گا اور پھر ان بڑے ہاتھیوں نے کعبہ کو چاروں طرف سے گھیر لیا محمود نامی سب سے طاقت ور ہاتھی کی رسیوں کو کعبہ کے گرد لپیٹا جارہا تھا اہل مکہ پریشان دُعا کناں ۔

۔عبدالمطلب اطمینانِ قلب کیساتھ موجود۔ اِدھر حکم ہوا ۔۔"حرکت کرو"۔۔۔محمود نامی ہاتھی نے اپنا دائیں قدم اُٹھا یا ہی تھا کہ آسمان سے یقایق پرندوں کے غول نمودار ہوئے اور انکے پنجوں میں کنکریاں برسنے لگیں ان برستی کنکریوں کا معجزہ کہ صرف ابراہہ کی فوج پرگرتے ہی ان میں سوراخ کر دیتیں اور اسکے علاوہ سب پر رحمت ہی رحمت ۔۔۔اب یہ جو بے نیازی امام حسینؓ عالی مقام کو اپنے جد سے ورثہ میں ملی اسی بے نیازی کا مظاہرہ حسینؓ نے ولید کے دربار میں کیا ۔

دربارِ ولید میں رات کے وقت اپنے ہاشمی جوانوں کیساتھ روانہ ہوئے اور اس دوران عبداللہ ابنِ زبیرؓ نے پوچھا کہ حسینؓ !تمہارا کیا خیال ہے کہ ولید نہ ہمیں کیوں دربار میں بلایا ہے؟ آپؓ نے فرمایا چونکہ معاویہؓ وفات پا چکا اور اسکا بیٹا یزید تخت نشین ہو چکا اسکی بیعت طلب کرنے کوبلایا ہے ۔اب جب زینب کو خبر ملی کہ میرے بھائی حسینؓ کو ولید نے دربار میں بلایا تو فرمانے لگیں بھائی حسینؓ میں تجھے اکیلا نہیں جانے دوں گی حسینؓ اپنے ساتھ بنی ہاشم کے جوانوں کو بھی لے جا اور ہاں عباس بھائی ۔

۔جی آقا زادی ۔۔تجھے معلوم ہے نا کہ تیری ماں سے شادی میری ماں کی خواہش پر کی گئی کیوں جو اماں کہتی تھی کہ بنی کلاویہ ایک شجاع خاندان ہے اس سے شجاع بیٹا پیدا ہو گا۔۔جی آقا زادی ۔۔دیکھ عباس اگر میرے بھائی حسینؓ پر آج مدینہ میں کوئی آنچ آئی تو میں ماں زہراؓ سے شکائت کروں گی ۔۔عباس کی جھکی ہوئی نظروں میں پریشانی کی برسات ہونے لگی ۔۔برستے آنسوں سے آقازادی کے قدموں کو ہاتھ لگا کر کہنے لگے ۔

۔آقا زادی! میں بچپنے سے یہ کہانی اپنی ماں سے سن رہا ہوں ۔۔میری ماں جب سے آپ کے گھر آئیں ہیں اپنے آپ کو آپکی ماں کی کنیز اور مجھے آپکا غلام کہتی ہیں ۔۔میں آپکی ہر خواہش پوری کرنے کا وعدہ کرتا ہوں مگر اپنے بھائی حسینؓ سے بھی ایک وعدہ آپ نے لیکر دینا ہے ۔۔بول عباس !کیا وعدہ لینا چاہتے ہو ؟۔۔آقا حسینؓ سے کہنا کہ بس مجھے یہ نہ کہے کہ تلوار نیام میں رکھو۔۔تلوار مت چلاؤ۔۔اب زینب بھائی حسینؓ کے قریب آئیں کیوں حسینؓ کیا تم عباس کو تلوار چلانے کی اجازت دو گے؟ تاکہ تمھیں کوئی گزند نہ پہنچے ۔۔سننا تھا کہ حسینؓ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہونے لگا گویا کسی نے اپنے پیارے کی موت کی خبر دے دی ہو ۔۔بہن زینب کے دونوں ہاتھوں کا بوسہ لیا اور فرمانے لگے ۔۔بہن !۔۔۔جاری ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :