اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول پارٹ فائیو

منگل 11 ستمبر 2018

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

گزشتہ سے پیوستہ ۔۔اب حسینؓ چلے 26رجب مدینہ شہر اسلام کو یزید نامی بیماری لگ چکی ، زینب کے گھر میں داخل ہوئے سر پر رسول ﷺ کا امامہ چہرے پر وہی علیؓ والا جلال عبداللہ کو سلام کیا زینب سے کہنے لگے۔ زینب !اسلام نے ہم سے مدد مانگی ہے اب تم سے مشورہ کرنے آیا ہوں مجھے معلوم تو ہے کہ تمہارا شوہر عرب کے نامور تاجروں میں سے ہے اور تم نازونعم میں اپنے گھر میں زندگی گزار رہی ہو مگر میری مجبوری ہے کہ تمہاری مدد کے بغیر میں اسلام کو لگی" یزید "نامی بیماری کی دوا نہیں کر سکتا ۔

اچھا زینب! میں اپنے بڑے بیٹے سجاد سے پوچھ چکا کہ تم جہاد اکبر کرو گے یا جہاد اصغر اور اس نے جہاد اکبر کو پسند کیا ہے۔ زینب بولی حسین تم کُلِ علم کے فرزند ہو بھلا تمہیں مجھ سے مشورہ کی کیا ضرورت؟ بس حکم کرو میں حاضر ہوں ۔

(جاری ہے)

نہیں! بہن زینب بات یہ ہے کہ۔۔ تم عمر میں بے شک مجھ سے چھوٹی ہو۔۔ مگر تم ہی گواہ ہو اس بات کی کہ اماں کے بعد ہم نے تمہاری عزت ماں کی طرح کی ہے ۔

۔باوجود بڑا بھائی ہونے کے ہر معاملہ میں تم سے مشورہ مانگا ہے ۔۔ بی بی نے فرمایا حسینؓ میرا متحان لے رہے ہو ۔۔سنو حسینؓ یہ جوخون ہے تمہاری رگوں میں۔۔ وہی خون تو میری رگوں میں ہے ۔۔جو دودھ تم نے پیا وہی دودھ تو میں نے پیا ہے ۔۔جو تمہارا نانا وہی میرا نانا ہے۔۔ جو تمہارا باپ وہی میرا باپ ہے۔۔ جو تمہاری ماں وہی میری ماں ہے ۔۔بس فرق اتنا ہے حسینؓ ۔

۔تیرے سر پر نانا جان کا عمامہ ہے ۔۔مگر دیکھ حسینؓ میرے سر پر ماں زہرا کی چادر ہے ۔میرا امتحان نہ لو حسینؓ۔۔دیکھ زینب میں تیرا امتحان نہیں لے رہا ۔۔مشورہ چاہتا ہوں ۔۔اگر مجھ سے پوچھتے ہو یا مشورہ مانگتے ہو تو اسلام کی اس بیماری کا حل یہ ہے کہ یزید کو کہہ دو میں تمہاری بیعت" نہیں "کروں گا۔۔اب جو زینب نے کہا "نہیں " ۔۔حسینؓ نے اپنا سر سجدے میں رکھ دیا ۔

خداوندا تیرا شکر ہے ۔۔میری بہن کی" نہیں "بھی میرے ساتھ شامل ہوگئی اب دنیا کی کوئی بھی طاقت اس" نہیں" کو ہاں سے نہیں بدل سکتی ۔۔مگر زینب ایک بات سنو!۔۔میں "نہیں "کہہ کے آیا ہوں ہم بہن بھائی کو اس" نہیں "کی قیمت دینا پڑے گی تاکہ اسلام کو لگی بیماری دفع ہو سکے ۔۔مگر زینب میری قیمت اور ہے اور تمہاری قیمت اور ہوگی ۔۔اب بی بی بولیں ۔۔حسینؓ مجھے بھلا کیا پرواہ؟فکر نہ کر ۔

میں اپنی اس نہیں پر قائم رہوں گی ۔میرے دل و دماغ میں کئی منظر کوندنے لگے۔میسونہ: جو یزید کی ماں ایک گلوکار خاندا ن کی خاتون۔ یزید بھی اسی طرز و فکر کا مالک ۔جس کا بچپنا صحرا میں گلوکار خاندان میں گزرا ۔ بندروں کیساتھ کھیلنا جسکا شغف ،بدکاری جسکا ہنر شراب جسکا مشروب، بس کہاں وہ خلافت راشدہ کی عظمت اور کہاں یہ ملوکیت کی پستی کا اظہار؟ یزید نے اپنے دربار میں بِن مقنہ و چادر قیدی مستورات کے سامنے شراب کے نشے میں مست ہو کر کہا کہ" یہ سب بنی ہاشم کا کھیل ہے نہ کوئی خبر آئی نہ کوئی وہی اتری "مظلومیتِ عمرؓ۔

مظلومیت عثمانؓ ۔مظلومیتِ علیؓ ۔گوندھ کر کربلا میں حضرت حسینؓ کے سامنے کھڑی تھی۔ جس کا حسینؓ کی آل اولاد کو سامنا کرنا تھا یا بیعتِ فسق و فجور یا بیعت ظلم و ستم یا بیعتِ و فرعون و ہامان کرکے اس مظلومیت سے بچا جا سکتا تھا ۔ چاہے ابو لولو کا زہریلا خنجر ہو یا خارجیوں کی تلوار جس نے عثمانؓ کے نہ صرف سر بلکہ انگلیوں کو بھی قطع کیا اور چاہے ابنِ ملجم کا زہریلا خنجر۔

۔ سب کے سب ظلم پنپ کے اور ابھر کے مزید طاقت کیساتھ خاندانِ اہلیبیت پر برسنے کو تیار۔ مگر حسینؓ ہیں کہ صبر کا ایسا انداز کہ آسمانوں پر انبیاء بھی حیران کھڑے کربلا کے دسویں کے دن دیکھ رہے ہوں گے ۔کون پتھر دل ہوگا؟ جس کے صبر کا پیمانہ اہلیبیت کی مظلومیت پر لبریز نہ ہوتا ہو؟ کون شقیِ قلب ہوگا؟ جس کا دل زہرا کے لال کی تین دن کی پیاس کا سن کر پریشان نہ ہوتا ہو؟ کون ظالم ہو گا جو؟- اِن چنے ہوئے افراد کی شہادت پر رنجیدہ نہ ہوتا ہو ؟ کون احساس سے عاری ہوگا؟ جو شامِ غریباں ظالموں کے خیام میں گھس کر لوٹ مار کرنے پر درد انگیز نہ ہوتا ہو؟ نہیں معلوم بلکل نہیں معلوم اور خوب شورش کاشمیری نے منظر کشی کی ۔

۔۔۔

سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں 
جس نے اولادِ پیمبر کا تماشا دیکھا 
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں 
جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا 
اں !تو زینب نے فرمایا حسینؓ اس اسلام کو بچانے کے لئے خون کی ضرورت ہے نا، صرف میری قربانی نہیں بلکہ میں اپنے دو لال کا خون بھی اسلام کی بیماری کو دفع کرنے کے لئے دوں گی حسینؓ تو پریشان کیوں ہوتا ہے؟ ماں نے جاتے ہوئے مجھے وصیت کی تھی کہ بیٹی دیکھ میرے حسینؓ کو پیاس بہت لگتی ہے یہ رات کو اٹھ اٹھ کر پانی مانگتا ہے اور مجھے کہا تھا بیٹی !جب 61ہجری کا 10محرم آئے تو میرے حسینؓ کی گردن پر بوسہ دیکر کہنا حسینؓ ماں کہتی تھی اسی گردن کی پشت پر خنجر چلیں گے ۔

حسینؓ سنتے رہے ۔۔اُم مصائب بہن بولتی جا رہی تھیں۔۔جاری ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :