اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول (گیارواں حصہ)

بدھ 26 ستمبر 2018

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

حسینی قافلہ ،30ہاشمی جوانوں کیساتھ مدینہ کی گلیوں سے ہوتا واپس اُسی جاہ و جلال سے ولید کے دربار سے واپس آرہا ہے ۔مدینہ کی گلیوں میں جاتے ہوئے حسینی قافلہ سے پوچھا ہو گا کہ کیا ہوا؟ کیوں مدینہ کے والی نے طلب کیا ؟ اہل مدینہ کو بتایا گیا ہوگا کہ یزید کی بیعت کا تقاضہ کرنے کو ولید نے بلایا ہے اور جب یہ قافلہ اُسی شان سے مدینہ کی گلیوں سے واپس آ رہا ہوگا تو سب کو ہاشمی جوان بتلاتے جا رہے ہوں گے کہ ہم نے بیعت سے انکار کیا ہے ۔

اس حسینی قافلہ کی سج دھج کیا خوب ہو گی کہ آگے آگے رسول ﷺ کے دوش کا سوار پیچھے عباس قمرِ بنی ہاشم عباس کے ایک طرف علی اکبر شبیہِ پغمبر ﷺ دوسرے طرف بھائی حنفیہ۔ اہل مدینہ دُعا کناں ہوں گے کہ میرے اللہ! اس قافلے کی خیر ہو۔

(جاری ہے)

میرے اللہ !ان اللہ کے چنے ہوؤں کو کامیاب کرنا۔ میں سوچتی ہوں کہ اگر 56موجودہ ممالک کا کوئی بادشا ہ ہو جسکی سرحدیں کراچی کے ساحل سے لیکر ایتھوپیا/حبشہ کے جنگلوں اور مغرب کے سرحدوں سے جاملتی ہو پھر"اس "سب سے طاقت ور بادشاہ جس سے روم کی عیسائی سلطنت کا بادشاہ بھی لرزتا ہو، ساری دنیا میں اسی بادشاہ کا ڈنکا اور سکہ چلتا ہو، اسکی فوج کی طاقت سے دنیا خوف زدہ ہو، جسکا مالیاتی نظام کا راج پوری دنیا پرہو، پھر آخر کیا ضرورت پڑی؟ کہ اگر رسول ﷺکا نواسہ جو مٹی کے چند گز کے گھر میں رہتا ہو یہ کہے کہ میں اس بادشاہ کو خلیفہ وقت نہیں مانتا میں اسے مسلمانوں کا خلیفہ نہیں مانتا ؟ بھلا اس بادشاہ کی طاقت پر اس نواسہ رسول کے انکار کاکیا اثر ہوتا ؟اس مٹی کے گھر میں رہنے والے کہ جس کی نہ فوج، نہ اسلحہ ،نہ پیسے کی ریل پیل، نہ دنیاوی جاہ و جلال۔

۔ مگر آخر کیوں؟ یزید نے اللہ کے چنے ہوؤں کو بیعت پر مجبور کیا ؟ آخر کیوں مدینہ شہر کو ویران کیا ؟آخر کیوں اپنے چچا زاد ولید کو بیعت لینے پر مجبور کیا؟ نہیں معلوم ۔۔نہیں معلوم ۔۔۔بس یہی سمجھ آتی ہے کہ جب حضرت علیؓ نے اپنے رسیوں سے بندھے ہوئے قاتل سے پوچھا کہ اے ابنِ ملجم! دیکھ جب سب کہتے تھے کہ اسے قتل کر دو اسکی نیت درست نہیں ہے میں نے انکار کیا؟ اور تجھ پر احسان کیا، اچھا یہ بتا کیا میں تیرا اچھا مولا نہ تھا ؟جو تو نے مجھ پر ضرب لگائی ۔

۔قاتل کہنے لگا یا علی !میری رسیاں سختی سے باندھی گئی ہیں میں تکلیف میں ہوں عباس سے کہیں کہ میری رسی ڈھیلی کر دیں ۔۔عباس اسکی رسیاں کھول دو۔۔اے خلیفہِ اسلام میں شرمندہ ہو ں بس میرا جواب یہی ہے کہ جسے اللہ کی جہنم بلا رہی ہو وہ آپکے سر پر ضرب نہ لگائے تو کیا کرے ۔۔۔یہ کہ کر ابنِ ملجم رونے لگا ۔۔حسنؓ! جی بابا۔۔حسینؓ !جی بابا۔۔ دیکھو اگر تو میں اسکی ضرب سے دنیاِ فانی سے کوچ کر جاوں تو اسے بھی صرف ایک ضرب اسی مقام پر لگانا اور اگر اس ضرب سے میرا قاتل بچ گیا تو چھوڑ دینا اوردیکھو اگر میں بچ گیا تو ابن ملجم کو چھوڑ دینا ۔

ہاں! یاد رکھنا ابن ملجم کو کوئی تکلیف نہ دینا ،کھانا اچھا دینا، پینے کیلئے بکری کا دودھ دینا، اسے خوف زدہ مت کرنا ۔۔۔میں کہوں گی اے خلیفہِ چہارم آپؓ پر سلام! ۔۔آپؓ اپنے قاتل پر اتنے شفیق اتنے مہربان ۔۔یہ تو قیدی ہے ۔۔یہ تو ظالم ہے ۔۔یہ تو آپکے سر پر مسجد میں ضرب لگائے ہوئے ہے ۔۔یہ تو مسلمانوں کو یتیم کرنے کو ہے ۔۔یہ انسان کی شکل میں درندہ ہے ۔

۔مگر اتنے مہربان ؟اتنے شفیق۔۔مگر آہ ۔۔آہ ! یہ جو حسینی قافلہ جب 11محرم کی رات کربلا کی زمین سے چلنے لگا تو زینب۔۔ بھائی حسینؓ سے فرمانے لگیں ،بھائی مجھے معلوم ہے آپؓ شہید ہو گئے ۔۔مگر بھائی یہ تو کوئی انصاف نہیں میں خاتون ہو کر آپؓ کی فوج تیار کرتی رہی۔۔ میں نے کبھی قاسم تیار کروایا۔۔ کبھی علی اکبر تیار کروایا۔۔ کبھی عون و محمد کبھی عباس علمدار۔

۔ کبھی 6ماہ کا علی اصغر تیرے ساتھ مل کر تیار کرواتی رہی۔۔ تو امامہ باندھتا میں تلوار سجاتی ۔۔تو زرہ باندھتا میں بازو بند باندھتی ۔۔بھائی! میں نے تو تیری فوج تیرے ساتھ مل کر تیار کروائی ہے مگر آج بھائی آ ذرا میری فوج کی تیاری دیکھ۔۔ میں شام فتح کرنے جا رہی ہوں۔۔ آ بھائی! ذرا دیکھ تو سہی میرے فوجیوں کو۔۔بھیاء 1مرد جو بیمار ہے ۔۔مستورات جنکے سروں پر سرخ پسینہ لگا ہے ۔

۔۔بھائی تو نے بھی ہتھیا ر سجائے تھے ذرا دیکھ میری تمام فوج کے ہاتھوں میں رسیاں ۔۔اور کچھ ننھے بچے بھی میرے ساتھ یزید کی سلطنت فتح کرنے جارہے ہیں ۔۔اور ہاں بھائی کچھ سر ہیں جو نیزے پر سوار تیری فتح کی نشانی بن کر عرب میں گھمائے جائیں گے جو کوئی بھی علی اکبر کے سر کو دیکھے گا تو پوچھے گا؟ یہ کس ظالم نے شبیہ رسول کا سر کاٹا؟ جو کوئی ننھے علی اصغر کا سر دیکھے گا پوچھے گا یہ جنگ نہیں یہ ظلم ہوا ؟ جو کوئی عباس علمدار کے سر کو دیکھے گا ایک دوسرے سے پوچھے گا یہ کس نے قمر بنی ہاشم کو گرہن لگایا ۔

۔بقولِ دبیر

غریب و در بدر و زار مبتلا زینب
یتیم و بیکس و مظلوم بے ردا زینب 
سوئے مدینہ ندا کرتی تھی بہ نالہ و آہ 
حسین بے کس و تنہا ہے رن میں وا جداہ
کفن کو چاک کرو گیسوؤں پہ ڈالو خاک
پڑا ہے خاک پہ شبیر اے شہ لو لاک
اے شہ لولاک تیری آل پہ یہ کیسا ظلم بپا ہے یہ گیارہ محرم ۔

۔یہ قیامت کا سما۔۔۔آہ ! آہ! بابا علی۔۔ تم تو قاتل کو بھی دودھ پلاتے رہے مگر ہم 3دن سے پیاسے ؟اور یہ کربلا کا جنگل۔۔ 

۔۔۔جاری ہے 

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :