اے کربلا کی خاک اس احسان کو نہ بھول۔(بارواں حصہ )

پیر 10 جون 2019

Ayesha Kamran

عائشہ کامران

(گزشتہ سے پیوستہ)
وہ جو اک قافلہ مدینہ سے چلا مقصد بس یہی کہ اللہ کا دین بچ جائے اُس وقت کے دہشت گردوں کے چہرے سے شرافت کا لبادہ نوچ ڈالنے کو تیار قافلہ یہ اُس علی کی آل تھی جس کے بارے میں ہمارے پہلے خلیفہ نے گواہی دی اور ہماری اماں عائشہ نے بھی اپنے والد کے کہے کی گواہی دی کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ علی کے چہرے کو دیکھنا عبادت ہے ۔

کیا کبھی کائنات نے یہ معجزہ بھی دیکھا کہ عرب کے لقالق صحرا کے وسط میں اللہ کے گھر کے سامنے ایک خاتون کے لئے خانہ خدا کی دیوار شق ہوئی ہو تاکہ اسکی پیٹ میں موجود بچہ دنیا میں آسکے؟ جسکا نشان آج بھی خانہ خدا کی دیوار پر موجود ہے۔ عجب نہیں؟ کہ کائنات کی طرف سے جواب آئے کہ میں نے تو اور بھی بہت منظر دیکھے جو نہ پہلے کبھی دیکھے گئے نہ بعد میں۔

(جاری ہے)

میں نے دیکھا کہ پیدائش کے بعد یہ بچہ نہ رویا نہ آنکھ کھولی جب تک کہ رسول اعظم ﷺکی گود میسر نہ ہوئی۔ اس بچے نے تو دودھ پینے سے بھی انکار کر دیا حتی کہ رسول ﷺنے اپنی زبان مبارک اس بچے کے منہ میں رکھ کر اسکی بھوک نہ مٹائی پھرجو عمر بڑھی رسول اعظم کی گود میں پلنے لگے اور دوش کے سوار کہلائے یہ فرزند ابوطالب رات کے رسول ﷺ کے بستر پر سوتے کہ اگر کوئی حملہ آور حملہ کرے تو رسول ﷺ بچ جائیں ایسی محبت تو خلوص میں گُندھا ہوا رشتہ بھلا کہاں ملے گا ؟اب جو اعلان ِ رسالت کیلئے بنی ہاشم کو دعوت دی تو بڑے بزرگ، قد آور شخصیات نے رسول اعظم کی دعوت ِ اسلام کا کھلا انکار کیا مگر یہ رسول ﷺکی گود کا پالا آگے بڑھ کر فرماتا ہے یا رسول اللہ اپنا سیدھا ہاتھ آگے بڑھائے میں آپ کے دین کی دعوت کو قبول کرتا ہوں اور یوں اسلام کو اس کا پہلا محافظ مِل گیا ۔

گویا کہہ رہا ہو کہ جب بھی اے اسلام تجھ پر مصیبت آئے گی میں سینہ تان کر تیری حفاظت کروں گا ۔چاہے وہ جنگ بدر ہو کہ جہاں اکثر مرنے والے کافر کا لواحقین کہتے کہ ہمارے عزیزوں کو علی نے مارا ہے۔ چاہے قلعہ خیبر ہو جہاں یہودیوں نے اسلام کے خلاف سازشوں کا گڑھ اور عرب کے پہلوانوں کا مسکن بنا رکھا تھا وہاں بھی ہر بڑے پہلوان کے لواحقین کہتے ہمارے عزیزوں کو علی نے مارا ہے اور چاہے جنگ خندق کہ جہاں عرب کا نامور پہلوان خندق عبور کرکے رسول اعظم کے خیمے کے دروازے پر نیزہ گاڑ کر توہین آمیز انداز میں دعوتِ رجز دیتا ہے، جو عام طور پر ایک ہاتھ سے اونٹ کو ڈھال بنا کر جنگ کیا کرتا تھا مگر یہ بھی علی کی تلوار کا شکار ہوا، اور چاہے وہ اُحد کا میدان کہ جہاں شکست قریب اور آپﷺ کی شہادت بھی قریب تھی مگر اس شکست کو فتح میں بدلنے والے کو علی کہتے ہیں میرا دل چاہتا ہے کہ پوچھوں اے علی آپ اسلام کی حفاظت کی خاطر عرب کے کینہ پرور معاشرے میں اپنے ہزاروں دشمن پیدا کیوں کر رہے ہیں ؟ان مارے جانے والے کافروں کے لواحقین کے دلوں کے کینے کی آگ آپکی نسلوں سے بدلہ لے گی ۔

۔۔کوئی عبث نہیں ۔۔کہ جواب آئے میں نے سوچ سمجھ کر یہ راستہ اختیار کیا میں باب العلم ہوں مجھ سے زیادہ کیسے معلوم ہے کہ یہ کینہ پرور میری نسلوں سے کیسا کیسا انتقام نہ لیں گے؟ بھلا میں جو رسول ﷺ کی زبان چوس کر پروان چڑھا مجھ سے ذیادہ کیسے معلوم ہو گا کہ ان اسلام دشمنوں کی نسلیں اپنے جد کے قتل کو نہیں بھولیں گیں مگر میری مجبوری ہے کہ رسول نے مجھے پروان چڑھایا اور میں اپنی اور اپنی نسل کے خون سے اسلام کو پروان چڑھاوں گا۔

شاید آواز آئے کہ سنو مجھے معلوم ہے کہ 19رمضان کو انھیں مقتولوں کی باقیات میں سے ایک میرے سر پر زہر آلودہ ضرب لگائے گا ۔مگر مجھے صرف ایک ضرب لگے گی جبکہ میرے بیٹے کو انھیں باقیات کی نسل 13ضربیں مار کر شہید کرے گی ۔مجھے ضرب کے بعد ٹھنڈا پانی اور دودھ ملے گا مگر میرا بیٹا3دن کا پیاسہ ہو گا اور ہاں میری بیٹیوں کو بھی ان مقتولین کی باقیات اپنے کینہ کی آگ میں جھلسا دے گی میری بیٹیاں بندھے ہاتھوں سے بے پلانے اونٹوں کے اوپر عرب کی گرمی میں عرب کے بازاروں میں تماشا بنائی جائیں گی مگر کربلا کا کوئی ننھابچہ بھی پیاس یا تلوار کے خوف سے مجھ سے برات نہ کرے گا ۔

میر انیس نے 21رمضان کے دن کو یوں بیان کیا کہ ۔۔۔
یہ کہتی تھی اور باپ کا غم کھاتی تھی زینب
سم کا اثر اک ایک کا دکھلاتی تھی زینب
سر بھائی جو ٹکراتے تھے گھبراتی تھی زینب
تھے شیر خدا غش میں موئی جاتی تھی زینب
چلاتی تھی سر پیٹ کے اے وائے مقدر
میں باپ کے آگے نہ موئی ہائے مقدر
۔۔جاری ہے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :