لال مسجد آپریشن کیوں ہوا؟؟؟

ہفتہ 21 نومبر 2020

Ayesha Noor

عائشہ نور

لال مسجد آپریشن کیوں ہوا؟؟؟ اصل حقائق کیا تھے؟؟؟ کچھ لوگ لال مسجد آپریشن کا حوالہ دے کر سابقہ مشرف  ِحکومت پر بے بنیاد الزامات عائد کرتے ہیں ۔ حالانکہ لال مسجد آپریشن کی تمام تر ذمہ داری لال مسجدکی باغی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔
جس کے نتیجے میں مسجد کا تقدس پامال ہوا ، اور بہت سے لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔بظاہر لال مسجد انتظامیہ کا مطالبہ تھا کہ اسلامی شریعت نافذ ہو اور بے حیائی کے اڈے بند کیےجائیں  ۔

یہ مطالبہ درست تھا مگر اپنی بات منوانے کےلیے جو طریقہ اختیار کیاگیا ، وہ صریحاً غلط تھا۔ لال مسجد والوں نے لوگوں کو اغواء کیا ، خواتین کو سرعام رسوا کیا , سی ڈی کی دکانوں کو آگ لگائی گئ ۔ اس کے باوجودمشرف حکومت  18 ماہ تک کوئی آپریشن کرنے سے گریزاں رہی۔

(جاری ہے)

کیونکہ اس وقت تک یہ مسئلہ فوج کا نہیں تھا بلکہ اسلام آباد کی مقامی حکومت اور پولیس کا تھا۔

مارچ 2007 میں لال مسجد کی طالبات نے 3 عورتوں کو اغوا کیا اور الزام عائد کیا کہ یہ جسم فروشی کا کاروبار کرتی ہیں ، بعد میں ان کو رہا کیا گیا۔ فروری2007 کو عبد العزیز نے پاکستان سپریم کورٹ کے متوازی "شرعیہ عدالت " بنالی اور دھمکی دی گئی اگر اس شرعیہ عدالت  کی بات نا مانی گئی یا کورٹ ختم کی گئی تو ہزاروں خود کش حملہ آوروں کو کھلی آزادی ہو گی وہ جہاں مرضی خود کش حملہ کریں۔

لال مسجد کے طلبہ و طالبات نے 'چلڈرن لائیبریری' پر دھاوہ بول دیا اور قبضہ کر لیا لیکن انہوں نے یہیں تک بس نہیں کیا بلکہ 10چینی اور  بہت سے لوگوں جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں کو اغوا کرلیا۔ 3جولائی 2007 کو جامعہ حفصہ کی طالبات کی پاکستان رینجرز کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ عینی شاہدین کے مطابق پاکستان کے رینجرز نے ہوائی فائرنگ کی لیکن ڈنڈا بردار طالبات نے ان سے وائرلیس سیٹ اور ہتھیار چھین لیے۔

رینجزز کو فلحال جوابی کاروائی  کا حکم نہیں ملاتھا ۔ چنانچہ  پولیس آئی اور آنسو گیس کے گولے فائر کرکے رینجرز کو چھڑایا۔
لیکن بات یہیں نہیں ختم ہوئی بلکہ پھر 150 طلبہ و طالبات نے محکمہ موسمیات کی عمارت پہ حملہ کر دیا اور وہاں آتے جاتے لوگوں پر فائرنگ شروع کر دی۔پولیس اور رینجرز نے وہاں جوابی کاروائی کی۔ اس آپریشن کے خاتمے پر 9 لوگ ہلاک ہوئے جن میں 4 لال مسجد کے حملہ آور بھی تھے۔

وہ علاقہ فوراً خالی کروا لیا گیا اور پاک فوج  نے کنٹرول سنبھال لیا۔
اگلے دن پورے علاقے میں کرفیو لگا دیا گیا اور فوج کو حکم ملا کہ کوئی بھی مسجد سے باہر اسلحہ سمیت نکلے تو فوراً پکڑ لیا جائے، اگر مزاحمت ہو تو گولی مار دی جائے۔
حکومتِ پاکستان نے فی طالبات کو پانچ پانچ ہزار مع فری تعلیم کی پیش کش کی ، طالبات کو ان کے گھر پہنچانے کی ضمانت بھی دی گئی ۔


4 جولائی 2007 تک دونوں اطراف سے فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ اس دوران حکومت کی جانب سے دو بار ڈیڈ لائن بھی دی گئی۔ لیکن لال مسجد کی انتظامیہ نے ہتھیار نہیں پھینکے بلکہ مزاحمت جاری رکھی   ۔
5جولائی کو تیسری اور چوتھی ڈیڈ لائن دی گئی کیونکہ فوج کسی بھی صورت مسجد میں آپریشن نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اسی دوران عبدالعزیز برقع پہن کر بھاگنے کی کوشش میں گرفتار ہوئے۔

جب اپنے قائد کو گرفتار ہوتے دیکھا تو 400 طالبات اور 800کے قریب طلبہ نے ہتھیارڈال دئیے ۔6جولائی کو بھی مسجد میں حکومت پاکستان کے لوگ مذاکرات کرنے گئے ،مولانا عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی عبدالرشید کے ساتھ مذاکرات ہوئے، لیکن کامیاب نا ہو سکے، عبدالرشید نے کہا کہ میری ماں کو با حفاظت باہر لے جایا جائے اور ان کا علاج کروایا جائے، ہم ہتھیار پھینک دیں گے لیکن کسی کو کچھ نا کہا جائے۔

حکومتی وفدنےسمجھاکہ شاید مذاکرات کامیاب ہونےجا رہے ہیں ۔لیکن کچھ ہی دیر بعد لال مسجد سےفوجی دستوں پر فائرنگ کی گئی۔ اسی شام جیو نیوز کے لائیو پروگرام میں عبدالرشید اپنی شرائط سے پھر گئے۔ ممکن ہے مسجد کے اندر کچھ القاعدہ  کے دہشت گرد موجود تھے جنہوں نےفوج پر فائرنگ کروائی اور عبد الرشید کو مطالبات سے مکر جانے پر مجبور بھی کیا تاکہ فوج کو آپریشن پر مجبور کیا جاسکے۔

اس دوران 21 مزید طلبہ و طالبات نےاپنے آپ کو حکومت کے حوالے کر دیا، اور پاک فوج کے کمانڈوز کو مسجد کا گھیرا کرنے کا حکم ملا۔ لیکن فوج کو مسجد کی جانب سے سخت اور بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کا سامنا تھا، اسی دوران   پرویز مشرف اسلام آباد سے بلوچستان میں سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرنے کیلیے نکلے، جوں ہی ان کے طیارے نے پرواز کی، لال مسجد کی چھت سے اینٹی ائیر کرافٹ گن سے ان کے طیارے کو نشانہ بنایا گیا، لیکن طیارے کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔

اب فوج پر واضع ہو گیاتھا کہ مسجد میں چھپے صرف طالبعلم نہیں بلکہ ان کے ہتھیاروں اور باہر سے مسجد کو ملنے والی معلومات سے یقین ہو گیا تھا کہ اندر طالبان اور القاعدہ سے تعلق رکھنے والے دہشت گرد ہیں ۔ چنانچہ یہ محض الزام ہےکہ فوج نے  خودہتھیاررکھے تھے، ابھی آپریشن شروع نہیں ہوا تھا، کوئی بھی مسجد کے قریب جاتا تو سامنے سے ہیوی فائرنگ کا سامنا کرناپڑتا۔

یہ اینٹی ائیر کرافٹ گن اور ٹنک شکن راکٹ لانچر مسجد کے اندر کہاں سے آ گئے ؟
 7جولائی کو ایس ایس جی کمانڈوز کو سخت مزاحمت کا سامنا تھا، اسی فائرنگ کی زد میں مایہ نازکمانڈو  'کرنل ہارون اسلام' بھی آگئے اور دو دن بعد ہسپتال میں دم توڑ گئے، پاک فوج کا آپریشن کامیاب رہا اور پاکستانی کمانڈوز کو لال مسجد کی دیواروں تک رسائی مل گئی۔ تاہم عبدالرشید نے ہتھیارڈالنے سے انکار کر دیا۔

اس دوران مفتی اعظم اور "امام کعبہ شیخ عبدالرحمان سدیس" اور "مولانا طارق جمیل" بھی عبدالرشید سے مذاکرات کرنےکی کوشش کرتے رہے کہ ہتھیار ڈال دو،اور مسجد کے تقدس کا خیال کرو وغیرہ۔ یہاں تک کہ امام کعبہ نے ریاست پاکستان اور پاک فوج کے خلاف ہتھیاروں سے فائرنگ کرنے والوں کو واضع الفاظ میں خوارج بھی کہا اور ان کو قتل کرنا جائز قرار دیا۔

اب یہ جنگ گرفتاری یا آپریشن ہی سے ختم ہو سکتی تھی کیونکہ اندر چھپے ہوئے کچھ القاعدہ کے لوگ تھے،  جن کے پاس فوج سے لڑنے کیلیے خطرناک اورجدید ہتھیار تھے۔ فوج   نےایمبولنس اور کھانے کا سامان بھیجا اور لال مسجد انتظامیہ سے کہا کے بچوں کو باہر بھیج دیں کیونکہ فوج یہی چاہتی تھی کہ تمام طالب علم بچے باہر نکل جائیں اور باقی القاعدہ کے دہشت گردوں سے مقابلہ کرکے مسجد خالی کروائی جائے۔

چنانچہ 10 جولائی کو کمانڈوز نے پیش قدمی کا فیصلہ کیا لیکن مسجد کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا کیونکہ مسجد کے اندر سے جدید ہتھیاروں سے فائرنگ کی جارہی تھی جبکہ  فوجی کمانڈوز کو بم یا ہینڈ گرنیڈ استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ جو آنسو گیس کے شیل پھینکے گئے تھے ان کا کوئی اثر نہیں ہو سکا، کیونکہ اندر موجود عسکریت پسندوں نے ماسک پہن رکھے تھے۔


اب تمام عسکریت پسند مسجد سے جامعہ حفصہ اپنے مورچوں میں چلے گئے، یہ بنکرز یا مورچے تین ماہ پہلے بنائے گئے تھے۔ شاید ان کوپتا تھا کہ یہ سب ہو گا۔ اس لیے خطرناک اسلحے کے ڈھیر جمع کرکے، چھپنے کے لیے بنکرز بنا رکھے تھے۔ جب بہت زیادہ مذاحمت ہوئی اور راکٹ لانچر،  بموں سے کمانڈوز پر حملے پر ہوئے تو کمانڈوز نے بھی جوابی کاروائی کی تو  فوج کو مشن گن کا سامناکرناپڑا ۔

اسی دوران ایک عسکریت پسند نے خودکش حملہ کیا اور وہاں موجود تمام لوگ مر گئے۔عبدالرشید کو پاوں میں گولی لگی تو کہا میں ہتھیار پھینکتا ہوں۔ اور ہاتھ اوپر کر لیے لیکن ان کے ساتھ کھڑےعسکریت پسندوں (القاعدہ دہشت گردوں) نے ہتھیار نہیں پھینکے اور کراس فائر میں عبدالرشید اپنے ہی ساتھی کی گولی کی زد میں آ گئے ۔اس آپریشن میں کل 109 لوگ جاں بحق ہوئے۔ 91 عسکریت پسند اور 10 باقی لوگوں میں کمانڈوز اور ایک رینجر کا اہلکار شامل ہے ۔
کل 1096 لوگوں کو باحفاظت باہر نکالا گیا جن میں 628 مرد، 465 عورتیں اور 3 بچے شامل ہیں۔ان تمام تر حقائق کو ملحوظ خاطر رکھ فیصلہ آپ خود کریں کہ قصوروار کون تھا؟؟؟۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :