سائنس اور اسلام کا دورِعروج ۔ قسط نمبر3

پیر 11 جنوری 2021

Ayesha Noor

عائشہ نور

ابوﻋﻠﯽ الحسن ﺑﻦ حسین ابن ﺍﻟﮩﯿﺜﻢ(۱۰۴۰, ۹۶۵ ﺀ )ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ مسلم ﻣﺎﮨﺮ ﻃﺒﯿﻌﺎﺕ تھے۔ آپ بصرہ میں پیدا ہوئے جوکہ علم وادب کا گہوارہ تھا۔ یہ بنو عباس کے "خلیفہ المقتدر " کا دورِ حکومت تھا۔ ابن الہیثم حصولِ علم کے بعد شاہی دربار میں  وزیر مقرر ہوگئے مگر ابن الہیثم سیاست کی بجائےصرف سائنسی علوم  پرتحقیقات کےخواہشمند تھے۔

چنانچہ انہوں نے عراق سے مصر جانے کا فیصلہ کیا اورقاہرہ منتقل ہوگئے۔  مصر میں اس وقت " الحکم کی  حکومت تھی ۔ جب " ابن الہیثم " قاہرہ پہنچے تو " الحکم " نے انہیں دریائے نیل پر ڈیم بنانے کا کام سونپا ۔ دریا کا جائزہ لینے کے بعد ابن الہیثم نے " الحکم " کے منصوبے سے تکنیکی وجوہات کی بناء پر اختلاف کرتے ہوئے " ڈیم " کی تعمیر کو ناقابلِ عمل قرار دے کرکام سے معذرت کرلی۔

(جاری ہے)

حکومتی معاملات   سےعلیحدگی کے بعد انہوں نے گوشہ نشینی میں رہتےہوئےسائنسی علوم  پرتحقیقات کاآغاز کردیا ۔ انہوں  ﻧﮯ ﺍٓﻧکھ ﮐﯽ ﺑﻨﺎﻭﭦ ﺍﻭﺭ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﯽ ﺻﺤﯿﺢ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺸﺮﯾﺢ ﮐﯽ۔اور ﻣﻐﺮﺏ ﮐﮯ ﭨﯿﻠﻮﻣﯽ ( Ptelomy ) ﮐﮯ ﺍﺱ ﻧﻈﺮﯾﮧ ﮐﯽ ﺗﺮ ﺩﯾﺪ ﮐﯽ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﺳﮯ ﺍٓﻧﮑھ ﺳﮯ ﻧﮑﻠﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﭼﯿﺰﻭﮞ ﭘﺮ ﭘﮍﺗﯽ ﮨﮯ ﺗﺐ ﻭﮦ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ۔

یہ بھی ﺑﺘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺩﯾﮑﮭﻨﮯ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﻣﯿﮟ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺳﮯ ﻣﻨﻌﮑﺲ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺟﺐ ﺍٓﻧﮑھ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻨﭽﺘﯽ ﮨﮯ,  ﺗﺐ ﺍﺷﯿﺎﺀ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩﯾﺘﯽ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺪﯾﺪ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﺑﮭﯽ ﯾﮩﯽ ﮨﮯ ﺍﻟﮩﯿﺜﻢ ﻧﮯ ﺍﻧﻌﮑﺎﺱ ﮐﺎ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﻌﻄﺎﻑ ﮐﮯ ﻋﻤﻞ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﮐﯿﺎ۔
آپ ﻧﮯ ﮔﻠﯿﻠﯿﻮ ﺳﮯ ﮐﺌﯽ ﺳﻮ ﺳﺎﻝ ﭘﮩﻠﮯ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﻮ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﮐﯿﺎ ﯾﻌﻨﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺟﺴﻢ ﺗﺐ ﺗﮏ ﺑﻐﯿﺮ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﯾﺎ ﺳﻤﺖ ﻣﯿﮟ ﺗﺒﺪﯾﻠﯽ ﮐﮯ ﺣﺮﮐﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ ﺟﺐ ﺗﮏ ﺍﺱ ﭘﺮ ﺑﯿﺮﻭﻧﯽ ﻗﻮﺕ ( force ) ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮕﺎﺋﯽ جاتی ۔

ابن الہیثم نے 92 ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﻣﻀﺎﻣﯿﻦ لکھےﺍﻭﺭ 200 ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﻋﻈﯿﻢ ﺍﯾﺠﺎﺩﺍﺕ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎد رکھی ‘ ﺍﻥ ﺍﯾﺠﺎﺩﺍﺕ ﻣﯿﮟ 7 ﺟﻠﺪﻭﮞ ﭘﺮ ﻣﺸﺘﻤﻞ ﻭﮦ ﮐﺘﺎﺏ ” ﮐﺘﺎﺏ ﺍلمناظر “ ﺑﮭﯽ ﺷﺎﻣﻞ ﺗﮭﯽ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺁﻧﮑھ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﮨﺮ ﺳﮯ ﺩﺍﺧﻞ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ‘ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﻋﺪﺳﮯ ‘ ﺁﺋﯿﻨﮯ ‘ ﻋﮑﺲ ‘ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺍﻭﺭ ﺭﻧﮕﻮﮞ ﮐﯽ ﺟﺎﺩﻭﮔﺮﯼ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ﺳﻤﺠﮭﺎﯾﺎ ‘ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺩﻭﺭﺑﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ‘ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺑﺘﺎﯾﺎکہ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﺎﻗﺎﻋﺪﮦ ﺍﯾﮏ ﺭﻓﺘﺎﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ ‘ ﺍﺱ  ﻣﯿﮟ ﺗﻮﺍﻧﺎﺋﯽ ﮐﮯذرات ( ﺍﯾﭩﻢ) ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ذرات  ﺳﯿﺪﮬﮯ ﺳﻔﺮ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺟﺲ ﻧﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﺑﺘﺎﯾﺎ کہ ﮐﯿﻤﺮﮦ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎﯾﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﻣﻨﺎﻇﺮ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﺎﺱ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮫ ﺳﮑﺘﮯ ﮨﯿﮟ ‘ دﻧﯿﺎ ﮐﻮ ﭼﺎﻧﺪ ﺍﻭﺭ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﮯ ﮔﺮﮨﻦ ﮐﯽ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ  توجیہات بتائیں   ‘ ﺳﺘﺎﺭﻭﮞ ﺍﻭﺭ ﺳﯿﺎﺭﻭﮞ ﮐﺎ ﮐﮭﯿﻞ ) ﻋﻠﻢ ﻧﺠﻮﻡ ( ﺳﻤﺠھ ﺁﯾﺎ ‘ ﭨﯿﻠﯽ ﺳﮑﻮﭖ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺋﯿﮑﺮﻭ ﺳﮑﻮﭖ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﭘﮍﯼ ﺍﻭﺭ ﻋﻤﻞ ﺍﻭﺭ ﺭﺩﻋﻤﻞ ﮐﺎ ﻭﮦ ﺍﺻﻮﻝ ﺳﻤﺠھ ﺁﯾﺎ ﺟﺲ ﭘﺮ ﮐﺎﻡ ﮐﺮ ﮐﮯ ﻧﯿﻮﭨﻦ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﻗﺎﻧﻮﻥ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺭﮐﮭﯽ ‘ ﻭﮦ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﺎ ﭘﮩﻼ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺗﮭﺎ ۔

ابن االہیثم ﻧﮯ  ﺁ ﻧﮑھ ﮐﯽ ﮨﯿﺌﺖ ﺳﻤﺠﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺳﻤﺠﮭﺎﺋﯽ ‘ اور ﺑﺘﺎﯾﺎکہ ﺁﻧﮑھ ﮐﮯ ﺗﯿﻦ ﺣﺼﮯ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯿﮟ ‘ ﻟﯿﻨﺲ ‘ ﺭﯾﭩﻨﺎ ﺍﻭﺭ ﻗﺮﯾﻨﮧ ‘ ﺁﻧﮑھ ﮐﮯ ﺍﻥ ﺗﯿﻦ ﺣﺼﻮﮞ ﮐﯽ ﺩﺭﯾﺎﻓﺖ ﻧﮯ ﺁﻧﮑھ ﮐﯽ ﺳﺮﺟﺮﯼ ﮐﯽ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﺑﮭﯽ ﺭﮐﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﻋﯿﻨﮏ ﺑﮭﯽ ﺑﻨﺎﺋﯽ  ‘ گزشتہ  ﮨﺰﺍﺭ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ابن الہیثم  کےکام پربےحد تحقیقات ہوئی ہیں  ۔

ﺩﻧﯿﺎ ﮐﻮﺍﺑﻦ ﺍﻟﮩﯿﺸﻢ ﻧﮯ 1021 ﺀﻣﯿﮟ ﺑﺘﺎﯾﺎ ‘ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﭘﻦ ﮐﯽ 90 ﻓﯿﺼﺪ ﻭﺟﮧ ” ﻗﺮﯾﻨﮧ “ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ ‘ ﮨﻢ ﻗﺮﯾﻨﮯ ﮐﯽ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﭘﺮ ﺗﻮﺟﮧ ﺩﯾﮟ ﺗﻮ ﺍﻧﺪﮬﺎ ﭘﻦ ﺧﺘﻢ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ ﮔﺎ ۔  ﺍبن الہیثم سےاستفادہ  ﮐرکے ﭼﯿﻦ ﮐﮯ ﺍﯾﮏ ﺳﺎﺋﻨﺲ ﺩﺍﻥ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﻗﺮﯾﻨﮧ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ہے ‘ ﯾﮧ ﺍﯾﮏ ﻋﻈﯿﻢ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺍﯾﺠﺎﺩ ﮨﮯ ‘ ﺍﺱ ﺍﻧﻘﻼﺏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﮯ 50 ﻓﯿﺼﺪ ﺍﻧﺪﮬﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻨﺎﺋﯽ ﻟﻮﭦ ﺁﺋﮯ ﮔﯽ ‘ ﺍﯾﮏ ﭘﺮﺗﮕﺎﻟﯽ ﻧﯿﻮﺭﻟﻮﺟﯿﺴﭧ ﻧﮯ ﻣﺼﻨﻮﻋﯽ ﺁﻧﮑھ  ﺑﻨﺎ ئی ہے ‘ ﯾﮧ ﺁﻧﮑھ ﺑﺎﺋﯿو ﭨﯿﮑﻨﺎﻟﻮﺟﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﺎﺋﯽ ﮔﺌﯽ ﺍﻭﺭ ﯾﮧ ﻧﺎﺑﯿﻨﺎﺅﮞ ﮐﮯ ﺩﻣﺎﻏﯽ ﭘﺮﺩﮮ ﭘﺮ ﺍﻟﯿﮑﭩﺮﺍﻧﮏ ﺳﺮﮐﭩﺲ اور انفراریڈ شعاعوں کے ذریعے ایسی تصویر بنائےگی۔

جس سے وہ عام انسانوں کی طرح دیکھ سکیں گے۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :

متعلقہ عنوان :