پولیس ریفارمز ناگزیر.......

پیر 28 ستمبر 2020

Chaudhry Amer Abbas

چوہدری عامر عباس

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ ایک پولیس اہلکار نے ایک شخص کا گریبان پکڑ رکھا ہے اور بدتمیزی سے پیش آ رہا ہے. اسی طرح چند روز قبل سی سی پی او لاہور نے رؤف کلاسرہ صاحب کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ایک لڑکے کیساتھ ڈکیتی کی واردات ہوئی. واردات میں کچھ لوگ اس کا لیپ ٹاپ وغیرہ چھین کر لے گئے.

اس نے چند سو کلومیٹر پر کھڑے ڈیوٹی پر موجود پولیس اہلکار کو شکایت کی. پولیس اہلکار نے اس لڑکے کو اپنے "وڈھے افسر" کی طرف ریفر کر دیا. بجائے اس کے کہ اس کی شکایت پر کوئی کارروائی کی جاتی "وڈھے افسر" نے کہا کل رسیدیں وغیرہ لے کر تھانے آ جانا.
پولیس کا اس قسم کا رویہ ایک معمول بن چکا ہے.

(جاری ہے)

دنیا بھر میں پولیس فورسز عوام کے تحفظ کی ضامن ہوا کرتی ہیں.

چاہیے تو یہ کہ پولیس کا نام آتے ہی ہر شہری کو تحفظ کا احساس ہو لیکن ہمارے ہاں الٹی گنگا بہتی ہے. مجھے آج بھی یاد ہے کہ بچپن میں ہمیں پڑھایا گیا کہ "پولیس ہمارے جان و مال کی حفاظت کی ذمہ دار ہے." لیکن بدقسمتی سے حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے. شریف آدمی کو اگر پولیس اسٹیشن جانے کا کہہ دیں تو اس کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے. بہت سے لوگ اپنے عمومی نوعیت کے مسائل کے حل کیلئے پولیس اسٹیشن جانے سے کتراتے ہیں.

یہ المیہ نہیں تو اور کیا ہے. دراصل ہمارا پولیس کا نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے. پولیس کے نظام کی کامیابی کو جانچنا ہو تو عام عوام سے رائے لیجئے. پولیس کا امیج اسقدر خراب ہو چکا ہے کہ آج عوام کی اکثریت عدم تحفظ کا شکار ہے. لیکن کیا کبھی کسی نے سوچا کہ ایسا کیوں ہے؟ پولیس ریفارمز لانے کی بات تو سبھی کرتے ہیں لیکن کسی نے حقیقی معنوں میں ایسی کوشش کبھی کی ہی نہیں ہے.

پولیس پر تنقید تو سبھی کر لیتے ہیں لیکن کبھی کسی نے اس ادارے میں موجود خرابیوں کی اصل وجوہات کو جاننے اور انکو درست کرنے کی کوشش ہی نہیں کی. یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ایماندار افسران کی کمی ہے. بحیثیت وکیل میرا واسطہ روزانہ ہر طرح کے لوگوں سے پڑتا رہتا ہے. پولیس میں بھی اوپر سے نیچے تک بہت سے ایماندار اور فرض شناس افسران موجود ہیں.

لیکن ہمارے پولیس سسٹم کا المیہ یہ ہے کہ اکثر ایماندار افسران کو اعلیٰ عہدوں پر تعینات کرنے کے بجائے "کھڈے لائین" لگایا ہوا ہے. ایماندار اور فرض شناس افسران کو شفاف طریقے سے میرٹ کے مطابق اعلیٰ عہدوں پر تعینات کر کے ہی پولیس اصلاحات کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے.
دوسرا یہ کہ پولیس تفتیش کا طریقہ کار ہی درست نہیں ہے جو آگے چل کر کیس میں پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے.

اس طریقہ کار کو جدید خطوط پر استوار کرنے کیلئے اس میں اصلاحات کی اشد ضرورت ہے. لہٰذا متعلقہ قوانین میں ترامیم کرکے تفتیش کے طریقہ کار میں بہتری لائی جا سکتی ہے.  پولیس اسٹیشنز میں فرانزک ایکسپرٹس کو تعینات کیا جائے.
تیسرا یہ کہ پولیس افسران اور فیلڈ سٹاف کی باقاعدہ ٹریننگ کا کوئی میکنزم ہی نہیں ہے جس وجہ سے نہ صرف پولیس کے ناروا روئیے کی شکایات سامنے آتی ہیں بلکہ پرفارمنس کا بھی فقدان نظر آتا ہے.

پولیس افسران کے اپنے ماتحتوں کیساتھ ناروا سلوک کی شکایات بھی اب معمول کی بات ہیں. لہٰذا تمام سٹاف کی سال میں کم از کم ایک ماہ ٹریننگ کی ازحد ضرورت ہے جس میں تفتیش کے جدید طریقہ ہائے کار، قوانین سے آگاہی، واچ اینڈ وارڈ، ادارے کے ضابطہ اخلاق اور سٹریس مینجمنٹ پر فوکس کیا جائے. پولیس میں ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے ازسرنو تشکیل کی جائے کہ جس میں ملکی اور غیر ملکی ایکسپرٹ ٹرینرز کی خدمات حاصل کی جائیں.

ٹریننگ کے بغیر نہ تو پولیس کے روئیے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے اور نہ ہی پرفارمنس کی توقع کی جا سکتی ہے.
چہارم یہ کہ طبی ماہرین کے مطابق بہترین دماغی اور جسمانی صحت کیلئے ایک دن میں کم از کم آٹھ گھنٹے کی پرسکون نیند کی ضرورت ہوتی ہے. تصور کیجئے کہ کیا آپ اپنے گھر کے چوکیدار سے مسلسل چوبیس گھنٹے ڈیوٹی لے کر اس سے بہترین تحفظ کی توقع کر سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں.

لا اینڈ آرڈر کی صورتحال کو کنٹرول کرنا اعصاب شکن کام ہے. پولیس اسٹیشنز میں ڈیوٹی روسٹر تو موجود ہوتا ہے لیکن اکثر چھوٹے شہروں کے تھانوں میں نفری کی کمی اور دیگر وجوہات کی بنا پر کئی ملازمین مسلسل چوبیس گھنٹے تک ڈیوٹی دے رہے ہوتے ہیں. کچہری کے اندر ہمارا تقریباً روزانہ پولیس اہلکاروں کیساتھ واسطہ پڑتا رہتا ہے. ہم کئی بار دیکھتے ہیں کہ کچہری میں آنے والے پولیس اہلکار نیند کی وجہ سے اکثر بنچوں پر بیٹھے بیٹھے ہی سو رہے ہوتے ہیں.

اب یہی اہلکار ناکوں پر کس طرح چوکس کھڑے ہوں گے. نیند کی کمی کی وجہ سے ہی انسان چڑچڑا اور جھگڑالو ہو جاتا ہے جو نتیجے کے طور پر پولیس اہلکاروں کا عوام کیساتھ ناروا سلوک کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے. لہٰذا سٹاف کی کمی دور کرنے کیلئے مزید بھرتیاں کی جائیں اور تھانوں میں نفری کی کمی پوری کی جائے. ایک اہلکار کو آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے بعد مکمل ریسٹ دیا جائے تاکہ اگلے دن وہ چاک و چابند ہو کر ڈیوٹی پر پہنچے اور مکمل چوکس رہ کر اپنے فرائض سرانجام دے.

پولیس افسران کو اپنے ماتحت عملہ کے بنیادی مسائل کو سمجھنا ہو گا. ہمارے اکثر پولیس اسٹیشنز میں وسائل کی بھی کمی ہے. گاڑیاں بہت پرانی ہیں جو اکثر خراب رہتی ہیں جس کی وجہ سے پٹرولنگ میں بھی مسائل آتے ہیں. ان پر بھی فی الفور توجہ دینے کی ضرورت ہے. معاشی خوشحالی کا براہ راست تعلق لا اینڈ آرڈر کی صورتحال سے ہوتا ہے. جن اضلاع میں لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب ہو وہاں چھوٹے بڑے کوئی بھی کاروباری سرمایہ کاری کرتے ہوئے کتراتے ہیں.

لہٰذا جہاں امن عامہ کی صورتحال بہتر ہوتی ہے وہ اضلاع خوشحال ہوتے ہیں. اقدامات تو اور بھی بہت سے ہیں لیکن اگر فی الحال انھی اقدامات پر عملدرآمد کر لیا جائے تو پولیس کے سسٹم میں کافی بہتری لائی جا سکتی ہے اور اس ادارے کو پبلک فرینڈلی بنایا جا سکتا ہے. پولیس ڈیپارٹمنٹ میں بہت اہل افسران اور ماتحت عملہ موجود ہیں صرف اصلاحات کی ضرورت ہے.

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :