وکلاء گردی کا بڑھتا ہوا ناسور

پیر 29 اپریل 2019

Chaudhry Muhammad Afzal Jutt

چوہدری محمد افضل جٹ

پچھلے کئی سالوں سے وطن عزیزمیں دہشت گردی،غنڈہ گردی کے عفریت کے ساتھ ساتھ ایک اور گردی کا ناسور سوسائٹی میں بڑی تیزی پھیلا ہے اور اس ناسور کا نام ہے ،، وکلاء گردی،، جس کے شر سے نہ جج محفوظ ہیں نہ ان کا عملہ ،نہ پولیس سلامت ہے اور نہ ہی غریب سائل ان کی غنڈہ گردی سے محفوظ ہر روز کوئی نہ کوئی شریف النفس ان کی اس وکلاء گردی کا شکار ہوتا ہے مگر افسوس اس بات کا ہے کہ اس ظلم و بربریّت کوروکنے کا کوئی بندوبست نہیں کیا جا رہا اس وحشّت ناک رویہ کا مظاہرہ گذشتہ روز جڑانوالہ کچہری میں وکیلوں نے خوب جم کر کیا اور اپنی متشّدانہ کاروائی سے مسندانصاف پر بیٹھے جج خالد محمود وڑائچ کو گھائل کر دیا جس سے بیچارا مسکین جج لہو لہان ہو گیا ججوں اوردوسرے اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ان کالے کوٹ والوں کا یہ ظالمانہ طرز عمل کوئی نیا نہیں ہے اس سے پہلے بھی بہت سے جج کالے کوٹ کے لبادے میں چھپے ا ن غنڈوں کے عتاب کا شکار ہو چکے ہیں فیصل آباد میں ان وکلاء حضرات نے ایک جج پر اس لئے جوتے برسا دیے تھے کہ اس جج نے وکیل کی منشاء کے خلاف فیصلہ سنایا تھا پاکستان کی بڑی بڑی بار میں تو یہ لوگ کمرہ عدالت میں گھس کر ججوں کو یرغمال بناتے ہیں جج صاحبان کو عدالتی کاروائیوں سے روک دیتے ہیں ان کی گاڑیو ں پر پتھراؤ کرتے ہیں جو ان کی مرضی کے خلاف اور قانون کے مطابق اپنی ججمنٹ دیتا ہے تو قانون و آئین کے یہ محافظ ان کے خلاف غلیظ اور بازاری زبان استعمال کرتے ہیں ا ن کی انتہاء پسندذہنیّت سے نہ ریاستی ملازم محفوظ ہیں نہ پولیس افسر ہی ان کی جارحیّت سے سلامت ہیں خود کو معتبر اور معزز سمجھنے والے دوسرے لوگوں کے منصب اور وقار کی تمیز کیے بغیر ان کی عزت کو تار تار کر دیتے ہیں وکلاء کی غنڈہ گردی کے ایسے واقعات تو پہلے بھی رونما ہوتے تھے لیکن وکلاء تحریک کے بعد اس جارحیّت میں بہت نمایاں اضافہ ہوا ہے اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ وکلاء کے ان جارحانہ اور متشدّانہ لہجہ کے آگے کوئی بندھ بھی باندھے گا یا یہ وکلاء گردی کا ناسور اسی طرح پھیلتا رہے گا اور اگر یہ رویے اسی طرح پنپتے رہے تو معاشرے کا کیا بنے گا کیا آئین و قانون اور عدل و انصاف کی حکمرانی کا دور بھی کبھی آئے گا کیا لوگوں کا یہ خواب کبھی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا کہ دنیا کہے کہ پاکستانی قوم ایک مہذب،آئین و قانون کی پاسدار،ترقی یافتہ اور پر امن قوم ہے یا پھر ہم جانوروں کے ریوڑ کی حیثیّت اختیار کر جائیں گے اور اگر پڑھا لکھا ،قانون و انصاف کے علم کا پاسبان اور خود کو مہذب سمجھنے والا طبقہ ہی غیر قانونی ،غیر آئینی ،غیر اخلاقی ،متشّدانہ اور جاہلانہ رویوں کی پیروی کرنے لگ جائے تو ایک ان پڑھ ،جاہل،گنوار اور اعلیٰ تعلیم یافتہ قانون کے رکھوالے قانون دان میں کیا فرق رہ جاتا ہے ہم ایک عام پاکستانی کی حیثیت سے وکلاء کے اس غیر انسانی اور ظالمانہ رویے کی پر زور مذمت کرتے ہوئے پاکستان بار کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ایسے وکلاء کے خلاف جو اپنے اتتہاء پسندانہ رویوں اور جارحانہ طرز عمل سے اس پیشے کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں ان کے خلاف سخت ایکشن لے تاکہ اس پیشے کا تقدس اور حرمت برقرار رہے کیونکہ ہم کو آزادی جیسی عظیم نعمت اسی پیشے سے وابستہ ایک مرد قلندر کی وجہ سے نصیب ہوئی جس کی اصول پسندی،راست بازی ،امن پسندی اور اخلاقی اقدار کا آج تک کوئی وکیل نمونہ پیش نہیں کر سکا ۔

(جاری ہے)


آخر میں ہم ایک بات وکلاء صاحبان کے گوش گزار کرنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ معاشرے میں وہی سب سے مہذب،تعلیم یافتہ اور اخلاقی اقدار کے مالک ہیں تو یہ ان کی بہت بڑی خود فریبی ہے بلکہ لوگ تو ان وکیلوں کو ،،،ابلیس کا چیلہ ،،، کہتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انصاف میں تاخیر کی سب سے بڑی وجہ ان وکلاء کی ہوس زر ہے کہ دنوں کا فیصلہ سالوں پر محیط ہو جاتا ہے ۔

وکلاء کے بارے میں یہ کہاوت تو عام ہے۔کہ
جب پیدا ہوا وکیل تو ابلیس نے کہا
لو آج ہم بھی صاحب اولاد ہو گئے
لہذا وکیل ہوش سے کام لیں کالا کوٹ پہن کر کالے کرتوت انجام نہ دیں بلکہ کالے کوٹ کو لوگوں کے لئے خیر اور بھلائی کا روشن استعارہ بنا دیں اور لوگ یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں کہ وکیل اور ابلیس کے رشتے والی بات حرف غلط کی غلط ہے۔۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :