Euthanasia ایک میڈیکل کی اصطلاح ہے ۔24 جولائی 1939ء کو دنیا میں اس وقت کہرام برپا ہوگیا ،جب ایک چند ما ہ کے اپاہج بچیGerhard Kretschmarکو نازی جرمنی نے تاریخ کا پہلا سٹیٹ سپانسرڈ Euthanasia دیا۔ ایو تھینیزیا کا مطلب ہے رحم والی موت، یعنی کسی کو اس وجہ سے قتل کردینا کہ وہ معاشرے یا دنیا کے قابل نہیں اور وہ ایک اپاہج زندگی سسک کے گزارنے کی بجائے مرجائے۔
یورپ میں اسے Mercy Killing بھی کہا جاتا ہے۔ گرہارڈ کو مارنے کے لیے ایک انجکشن کا استعمال کیا گیا جسے آج کی دنیا پوٹاشیم کلورائیڈ کے نام سے جانتی ہے اور جو جسم میں نمکیات کی کمی پوری کرنے کے لیے لگایا جاتا ہے۔ آسٹریا میں ایک مشہور محل جسے آج Hartheim Castle کہا جاتا ہے ، پوری دنیا کا پہلا Hartheim Euthanasia Centre بنا، جہاں صرف کچھ سالوں میں 18,269 بچوں، بوڑھوں،اپاہج لوگوں کو موت کی گھاٹ اتارا گیا۔
(جاری ہے)
یہاں بڑے بڑے گیس چیمبر بنائے گئے، ایسے لوگوں کو پوری جرمنی سے پکڑ پکڑ لانے کے لیے گاڑیاں، حتی کے ایمبولینس تک تعینات کی گئیں اور زبردستی یہاں ایسے افراد کو لایا جانے لگا۔ ان سنٹرز کا سب سے خوفناک پہلو نازی کے وہ ڈاکٹر تھے، جو پڑھے لکھے تھے، اور دن رات وہ صرف اس کام میں رہتے تھے کہ کس طرح بڑے پیمانے پر ایسے بچوں اور افراد کو Mercy Killing کے نام پر مارا جاسکے۔
یہ اڈولف ہٹلر کا عروج تھا اور 24 جولائی 1939ء سے شروع ہونے والا یہ سلسلہ پورے جرمنی میں پھیل گیا اور بعد میں ہولوکاسٹ کے نام سے یہودیوں کا قتل عام بھی اسی اصطلاح میں کیا جانے لگا۔ ہارتھیم کے سنٹر کی طرح کے اذیت خانے بنائے گئے جہاں یہودیوں کو بڑی تعداد میں اسی طرح قتل کردیا جاتا تھا،جس طرح ہارتھیم کے سنٹر میں جرمنی کے اپنے بچوں اور شہریوں کو مار دیا جاتا تھا۔
ہٹلر کی موت کے بعد یہ سنٹر کو ختم ہوگئے ،مگر Euthanasia کو پوری دنیا میں چند ملکوں میں قانونی حیثیت حاصل ہوگئی اور آج بھی ویجیٹیبل سٹیٹ یعنی مستقل کومے میں آنے والے مریضوں کو ایک قانون کے تحت سانس کی مشن اتار کر یا زہر کا ٹیکہ لگا کر مارنے کا قانون موجود ہے۔ Gerhard کی تصویر دنیا کے سامنے نہیں لائی گئی ،اسے چھپا دیا گیا اور یہاں تک کہ اس کے بارے میں آپ کو تاریخ میں کچھ بھی زیادہ معلومات نہیں ملتی دکھائی دیتیں۔
بس اتنا معلوم ہے کہ وہ نابینا تھی اور اس کی ہاتھ پیر نہیں تھے۔ میں اکثر تاریک راتوں میں بیٹھ کر سوچا کرتا تھا کہ اگر Gerhard کا کوئی چہرہ ہوتا تو کیسا ہوتا؟ ایک معصوم کو کوئی زہر کا ٹیکہ کیسے لگا سکتا ہے؟ ان سوالوں کے جواب کی تلاش مجھے میرے ہی ملک میں بہت بڑے مافیے کے در پر لے آئی ، جنہوں نے اسی ملک میں راتوں رات موت بانٹنے والی فیکٹریاں لگائیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں تھا۔
ان فیکٹریوں کا نیٹ ورک بہت وسیع تھا اور پورے ملک میں پھیلا ہوا تھا ۔ جرمنی کا سب سے بڑا حریف امریکہ ڈھائی سو سال میں 179 میڈیکل سکول بنا پایا او ر ہم نے صرف چند سالوں میں دنیا کی سپر پاور سے اس میدان میں ٹکر لے لی۔ 60 سال میں صرف 27 میڈیکل کالج کے ملک میں ڈاکٹر عاصم کے آنے کے بعد ایک جادو ہوگیا اور اسی ملک میں پرائیوٹ میڈیکل کالجز کی تعداد 102 ہوگئی، ہر گلی ، ہر محلے میں میڈیکل کالج کھل گیا،او اے لیول کی برطانوی مہنگی تعلیم کی فیسیں بھرنے والوں کے لیے ان میڈیکل کالجز کی بھاری فیس کیا اوقات رکھتی تھی۔
کچھ نے تو لفظ تعلیم کی حرمت کا خیال رکھا، باقیوں نے صرف پیسہ کمانے کے لیے عمارتیں کھڑی کیں اور یہاں سے اس ملک میں سٹیٹ سپانسرڈ Euthanasia کی بنیا د پڑ گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ بچے جو ان عمارتوں میں پیسے کے ساتھ بھی داخل نہیں ہوسکتے تھے، ان کے ایف ایس سی میں اگر پانچ سو نمبر بھی تھے تو ان کے لیے چین روس کی راہداریاں کھلی تھیں۔ گو ان میں چند بچے بہت قابل تھے، مگر اکثر ایسے ضرور تھے کہ جو کسی طور،کسی میرٹ پر مسیحا بننے کے اہل نہیں تھے،وہ بھی ڈاکٹر بن گئے اور یوں سرکار کے میڈیکل کالجز میں سخت میرٹ بنانے والے، پرائیوٹ میڈیکل کالجز میں پیسہ میرٹ اور پھر چین روس کی فوج، یہ سب اکٹھا ہوگیا اور نظام برباد ہوگیا۔
دوسری طرف مریضوں کے ساتھ اسی فیصد واسطہ رکھنے والے عملے یعنی سٹاف نرسز اور پیرا میڈیکس کی ٹریننگ کا سوائے چند سرکاری ہسپتالوں کے کوئی موثر نظام نہ رہا اور یہاں بھی گلی گلی نرسنگ سکول اور پیرامیڈیکس کے ادارے کھلتے گئے اور سرکار یہاں بھی مٹھی گرم پالیسی پر عمل کرتی رہی اور یوں صحت کی ابتری اپنے عروج پر پہنچتی گئی۔ اس پر مزید سرکاری میڈیکل کالجز اور ہسپتالوں کا نہ بننا اور پرائیوٹ ہسپتالوں میں انوسٹر مافیے کے داخلے نے صحت کے شعبے کی مکمل تباہی کردی۔
افسوس کے ساتھ سابق حکمرانوں کی ترجیحات میں جہاں تعلیم اور صحت کو سب سے اول ہونا چاہیے تھا، انہوں نے اس کو نہ صرف سب سے نیچے رکھا، بلکہ یہاں کرپشن کے بھی بازار گرم کرنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی۔ کیا کوئی پوچھنے والا تھا کہ اس ملک میں کیا انقلاب آیا تھاکہ دو تین سالوں میں میڈیکل کالجز کی تعداد ایک شخص کے اشارے پر 27 سے 102 ہوگئی؟ ایک طرف تو یہ سب تھا، دوسری طرف ایک اور مافیا کام کررہا تھا کہ جس کو کوئی پوچھنے والا نہیں تھا وہ تھا Quackery مافیا۔
یعنی گاؤں گاؤں، قصبے قصبے، جہالت سے کھیلتے وہ کمپاؤڈر، نیم حکیم اور آدھ پورے ڈسپنسر جن کے پاس ڈاکٹری یا پیرا میڈیکل کی کوئی ڈگری نہیں تھی، انہوں نے سفید کوٹ پہن اور گلے میں ڈاکٹر کی ٹوٹی لگا کر لوگوں میں موت بانٹنی شروع کر رکھی تھی۔ ان لوگوں کو آج بھی اپنے کام میں اتنی آزادی ہے کہ یہ لوگ جراحی کے مشکل ترین آپریشن تک کرتے پھر رہے ہیں اور ان کو کوئی پکڑ نے والا نہ تھا اور نہ آج ہے۔
سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے حکم نامے کے بعد ان پر کچھ عرصہ سختی آئی تھی ، مگر آ ج پھر یہ بازار گرم ہے۔ میں جس چہرے میں Gerhard کو ڈھونڈتا تھا وہ مجھے کئی سال بعد نشوا کی آنکھوں میں نظر آیا۔ یہ صرف وہ ایک کیس تھا،جو اس ملک کے سب سے بڑے شہر کے ایک پرائیوٹ ہسپتال میں اس کے والد کے شور مچانے پر کیمروں کی زینت بنا تھا۔ کم پیسوں میں رکھی گئی ایک سٹاف نرس اور ایک ناتجربہ کار وارڈ بوائے نے وہی ٹیکہ جو Gerhard کی رگوں میں اتارا گیاتھا، بغیر کسی لیبل کے ، بغیر اسے کسی محلول میں تحلیل کیے، نشوا کی رگوں میں براہ راست اتار دیا، نشوا کو اسی وقت دل کا دورہ بڑا، جس کے دماغ کی 71 فیصد خون کی سپلائی متاثر ہوئی اور نشوا ویجیٹیبل بن گئی۔
چند دن مصنوعی سانس کی مشین پر رہنے کے بعد،نشوا آنسوؤں کے ساتھ کئی سوال چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ گونج کے راقم القلم کے پیشے نے کئی بار ، یہ تحریر لکھنے نے اسے روکا، مگر پھر میری اپنی بیٹی کا چہرہ اور ضمیر تمام چیزوں پر حاوی ہوگیا۔ ہم سب نے مل کر قصبوں، دیہاتوں میں Quackery کے خلاف بہت آواز آئی، وہ دائیاں جو بچے کے ساتھ ماں کی آنتیں تک کھینچ لیتی ہیں،جو کوئی میڈیا کا کیمرہ نہیں دیکھتا،ہم نے وہ بھی آنکھوں سے دیکھا، مگر وہ جہالت کے سو اندھیروں میں پھر اس نظام کی لعنت سمجھ کر کڑوے گھونٹ پیتے رہے، مگر انوسٹر مافیے نے جس طرح Quackery کو اچھے ہسپتالوں میں دعوت دے دی ،اس نے یقینا آج یہ لکھنے پر مجبور کردیا ہے کہ تھوڑا پیسے بچانے کے لیے انہوں نے ہسپتال نما Hartheim کے ایوتھینیزیا سنٹر زیادہ کھول دیے ہیں اور پھر سیاسی اثر و رسوخ اور پیسے کے آگے ،سب مرنے کو تیار ہیں۔
ایک اور ذمہ داری ان چند سینئر ڈاکٹرز پر بھی عائد ہوتی ہے، جو انہی پرائیوٹ ہسپتالوں میں شام کو نوٹ اکٹھے کرنے تو پہنچ جاتے ہیں، مگر کبھی ان کے نظام کو چیلنج نہیں کرتے اور نہ ہی سرکار میں کام کرتے وہ تربیتی ڈاکٹر ز جن کی تربیت کا انہوں نے اگلے جہاں حساب دینا ہے،ان پر کوئی نظر رکھتے ہیں۔ اس پیسے کے کھیل نے چند چہروں کو تو شاید اس قدر خود غرض بنا ڈالا ہے کہ وہ کسی جونئیر ڈاکٹر کو کام سکھانا بھی اپنی روزی روٹی کے لیے threat سمجھتے ہیں، اور ہر طرح کی ذمہ داری کے باوجود جونئیر ڈاکٹرزکو کام نہیں سکھایا جاتا، یہ اپنے طور ایک طرح کی Quackery یعنی نیم حکمت کو مدد دینا ہے۔
عوام جو شاید اس تحریر کا منفی پہلو زیادہ دلوں میں اتار لے، ان کی نظر ادیب رضوی جیسے ان چہروں پر ڈالنا چاہتا ہوں، جو جوانی میں ہی بے لوث ہزاروں جانیں روزانہ ہر رات بچاتے ہیں۔ جو چھتیس چھتیس گھنٹے جاگ کر صرف آپ کا علاج کرتے ہیں، جن کے اپنے بچے نجانے کس حال میں ہوتے ہیں، مگر وہ آپ کے بچوں کی جان بچانے میں مصروف ہوتے ہیں۔ ان میں ایسے سینئر ڈاکٹر بھی ہیں جو دن رات مریضوں کی خدمت کرتے ہیں اور اپنء جونئیر ڈاکٹرز کو ہاتھ پکڑ کر کام سکھاتے ہیں۔
اسی نظام میں اچھے پرائیوٹ میڈیکل کالجز کے ڈاکٹر بھی ہیں، سرکاری میڈیکل کالج کے ڈاکٹر بھی ہیں، چین روس کے پڑھے اچھے قابل ڈاکٹر بھی ہیں اور وہ ٹرینڈ سٹاف نرسز اور وارڈ بوائز بھی ہیں جو خود کو طرح طرح کی بیماریاں انہی مریضوں سے لگا لیتے ہیں، مگر مریض کی جان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز سمجھتے ہیں۔ ان میں بہت سے پرائیوٹ ہسپتال بھی ہیں ،جو فلاحی کاموں میں اپنا حصہ بٹا رہے ،جو یقینا انوسٹر مافیے اور ان کی Quackery کی مدد سے دور ہیں اور جو کسی جیتی جاگتی نشواکو وہ موت نہیں دینا چاہتے جس نے دنیا میں Euthanasia کی بنیاد رکھی تھی۔
کئی سالوں کی پڑھائی کے بعد اس ملک میں ہزاروں ڈاکٹر ایسے ہیں، جو اس نظام میں Quackery کی وجہ سے اپنے انسانیت کے مشن پر کام کرتے ڈیپریشن کا شکار ہوتے ہیں، ملک سے بھاگ بھی جاتے ہیں اور اس ملک میں رہ کر بھی نظام کو زندہ رکھنے کی سعی کرتے ہیں۔ ایک گونج یہی کہتی ہے کہ نشوا کے آنسوؤں نے ایک ڈراؤنے خواب سے بیداری کے لیے سب کی آنکھوں کو ایک جہد دی ہے۔
یہاں طب کے نظام کے دو چہرے ہیں،ایک چہرے پر کالی سیاہی ملی ہے،اس میں Euthanasia،کرپشن، انوسٹر مافیا،Quackery ہے اور دوسرا روشن چہرہ ہے،اس میں بے لوث خدمت،کئی سالوں کی ریاضت اور خاندانوں کی قربانیاں ہیں۔ یہ اس ملک کے قانون ، اداروں ، سرکار ، پڑھے لکھے بے لوث ڈاکٹرز،سٹاف نرسز ،پیرا میڈیکس اور پھر عوام کی ذمہ داری ہے کہ وہ کالے چہرے کی سیاہی کو ہمیشہ کے لیے دھو ڈالے کہ پھر اگلے جہاں ہمیں بطور قوم کسی نشوا کے آنسوؤں کا حساب نہ دینا پڑے۔ اگر یہ سلسلہ آج ہم نے نہ روکا تو وہ وقت دور نہیں جب ہم سب سٹیٹ سپانسرڈ Euthanasia کے گرداب میں پھنس جائیں گے اور باہر کی دنیا ہماری Mercy Killing پر آمادہ ہوجائے گی۔