مکھی،کتے کی لڑائی اور ہم

پیر 9 ستمبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

تاریخ میں سب سے پہلی صلیبی جنگ نیل آرمسٹرانگ کی کتاب میں 1096ء میں دکھائی گئی کہ جب مسلمانوں سے بیت المقدس چھیننے کی کوشش کی گئی ،یہ جنگ تین سال جاری رہی،مگر تاریخ اس سے زیادہ پرانی ہے ، ظہور ِ اسلام سے پہلے یہودی اور عیسائی بہت با اثر تھے، جب ان کی طاقت ٹوٹتی دکھائی دینے لگی ، تو انہوں نے اسلام کیخلاف اعلانِ جنگ کردیا گیا ، مگر اونٹ چرانے والے جاہل عرب اس قدر طاقت ور نکلے کہ انہوں نے بہت جلد عیسائی اکثریت ممالک مصر، شام، عراق ، ایران(آتش پرست)،اسپین،وسط ایشیاء،آرمینیاء،آذر بائی جان، کریٹ اور قبرص پر قبضہ کرلیا۔

آنے والے سلسلے 1096ء کی جنگ تک جانکلتے ہیں، اس کے لیے پوپ اربن دوم نے عیسائیوں کو اکسایا اور بیت المقدس ،فلسطین اور ملحقہ علاقے فتح کرلیے گئے۔

(جاری ہے)

دوسری صلیبی جنگ 1147ء اور تیسری جنگ1189ء میں لڑی گئی اور اس کا مقصد مشہور مسلمان جرنل صلاح الدین ایوبی کو بیت المقدس کے حملے سے روکنا تھا،دوسری طرف انگلستان کا بادشاہ رچرڈ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ اس جنگ میں شریک تھا،اس جنگ میں ایوبی کو فتح حاصل ہوئی ،مگر یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔

یہ ایک سے دو سو سال تک چلنے والا صلیبی جنگوں کا پہلا عشرہ تھا۔ دوسرا عشرہ تیروہیں صدی کے اواخر اور چودہویں صدی کے شروع میں ظہور پذیر ہوا، اس عشرے میں انگریز ،ہسپانوی ،جرمن حکمرانوں نے مراکش،تیونس، الجیریا، مصر،لیبیا،سوڈان،چاڈ،یوگنڈا،سینی گال،شام،فلسطین،انڈیا،گمبیا،مالی،گنی وغیرہ پر قبضہ کرکے مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی۔

یہ سلسلہ اس کے بعد کسی مہلک بیماری کی طرح تھما نہیں، مگر اس کی شدت میں کمی آگئی۔آنے والے سالوں میں برطانوی راج آیا اور مسلمان چھوٹی چھوٹی سلطنتوں میں بٹ کر رہ گئے اور ان کی ان ریاستوں کو بڑی طاقتوں نے دوسری جنگ عظیم کے بعد اپنی سرد جنگ کی Battle Fields بنا لیا اور یہاں سے مکھی اور کتے کی بے سرو پا بھیانک لڑائی کا آغاز ہوا، جس کی Mechanics سمجھ سے بالاتر ہیں۔

پوری دنیا حیران ہے کہ یہ کیسی لڑائی ہے۔ یہ مکھی اور کتے کی لڑائی ہے۔ حجم میں بہت کم نظر آنے والا دشمن ، مگر انتہائی طاقتور۔مکھی جب بھی کسی کتے سے جنگ کا ارادہ رکھتی ہے تو اسے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ کتے کا حجم اس کی طاقت سے ہزاروں گنا زیادہ ہے۔اس لیے وہ کبھی اس کے کان پر کاٹتی ہے، جب وہ کان کی طرف متوجہ ہوتا ہے تو اس کی دم پر جا کاٹتی ہے۔

دم سے اٹھتی ہے تو پیٹ پر اور پیٹ سے اڑتی ہے تو پشت پر اور یوں کتا جھنجھلاہٹ میں خود کو ہی کاٹ کاٹ کر مرجاتا ہے، یا پھر پاگل ہوجاتا ہے۔ دنیا بھرمیں صلیبی جنگوں کی تاریخ لکھنے والے ہمیشہ سے اس جنگ کو بھی صلیبی ہی کہہ کر اس جنگ کی اصل روح سے گردن چراتے آئے ہیں، مگر شاید حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے۔شاید یہ صرف طاقت کا غرور ہے ، پوری دنیا پر برطانوی راج کو کسی نہ کسی شکل میں زندہ رکھنے کا کوئی جنون ،یا شاید،ایک جنگ جو کئی ہزار سالہ مسلمانوں کی حکمرانی کا بدلہ ہے۔

اس سارے بدلے میں ایک سوچ پیدا ہوئی، یہ سوچ دو سال کے بچے سے لے کر کسی ساٹھ ستر سال کے تجربہ کار شخص سمیت سب کی ایک جیسی ہی تھی۔اس سوچ میں سب یہی سمجھتے آئے کہ کتا ، مکھی سے زیادہ طاقتور ہے اور اس نشے میں انہوں نے سب داؤ پر لگا دیا۔تاریخ گواہ ہے کہ صدام حسین ایک طاقتور حکمران تھا،اس کے پاس پانچ لاکھ کی فوج تھی،6 لاکھ کا ریزرو تھا، یہ اس قدر طاقتور تھی کہ دنیاکو پورا یقین تھا کہ یہ فوج بڑی سے بڑی طاقت کو شکست دے دیگی، مگر جب امریکہ نے اپنا تسلط جمانے کی ٹھانی تو دنیا کی اس سوچ نے مکھی کا درجہ دے کر صدام کی تباہی دیکھی۔

جب صدام کا مجسمہ گرایا جارہا تھا، تو اس کی 14 بلین ڈالر پر پلنے والی فوج کا ایک بھی فوجی اس مجسمے کو گرنے سے روک نہ سکا۔مگر اس کے بعد جو ہوا، وہ اس سے زیادہ بھیانک تھا، صدام کی مکھی اڑی اور وہ اپنے سے طاقت میں کئی گنا حجم والے کو باؤلا کرنے لگی ۔ امریکہ پاگل ہوگیا اور وہ ہر جگہ بے جا حملے کرنے لگا۔یہ حملے اس قدر پاگل پن کا شکار تھے کہ ہر بار امریکہ کا مقابلہ کسی ایسی مکھی سے ہی تھا اور ہر بار یہ جنگ پھیلتی ہی گئی۔

روس نے جب افغانستان میں قدم رکھا تھا، اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ سرد جنگ کی بھینٹ وہ جس مکھی کو چڑھانے جارہا ہے ،وہ خود تو قائم رہے گی ، مگر اس کی اس قدر بڑی سلطنت کا شیرازہ بکھیرا جائے گا۔افغانستان صرف ایک battle field تھا،اصل میں کئی جنونی کتے اپنی لڑائی مکھی کے دامن میں لڑ رہے تھے اور اس میں ایک شکست کھا رہا تھا، جب کہ مکھی صرف اپنا کام کررہی تھی۔

روس کو شکست ہوگئی اور امریکہ اس جنون میں غلطی پر غلطی کرنے لگا۔روس کے خلاف، کئی سال تک وہ ایسے طاقتی روبوٹوں کو پالنے میں لگا رہا ، جن کو بنانا تو اسے آتا تھا، مگر ان روبوٹوں کے آؤٹ آف کنٹرول ہونے پر ان کو diffuse کیسا کرنا ہے، یہ نہیں جانتا تھا۔یوں ایسی طاقتیں بنا دی گئیں،کہ جنہوں نے خود امریکہ کی قبر کھودنی شروع کردی اور انہی کے تانے بانے پھر مختلف نام لیے عراق، شام ،لیبیا تک پھیلتے چلے گئے۔

conspiracy تھیوری اس ساری انٹرنیشنل گیم کو جو بھی نام دے ، مگر حقیقت یہی ہے کہ امریکہ نے روس کی تباہی کے لیے پیدا کی ہوئی قوتوں کو مکھی کا درجہ دے کر سرد جنگ کے لیے لگائی بارودی باڑ میں خود چھلانگ دی۔ دانشور صرف قندھار شہر میں بوسیدہ کپڑے پہنے چند مفلس الحال جنگجو دیکھ رہے تھے،ان کے ہاتھ میں پرانے ماڈل کی بندوقیں تھی اور ان کی بربادی لکھی جاچکی تھی۔

یہ اپنے روبوٹوں کو diffuse کرنے کا ایک چھوٹا سا پلان تھا۔ ان جنگجوؤں کے پاس سے ایک میزائیل زناٹے سے گزرا،اوپر خلا کی سیٹلائیٹس سے رہنمائی لیتے اس میزائیل نے اپنی جگہ کا تعین کیا اور پھر مڑ کر ان کو تباہ کردیا۔ یہ جدید ٹیکنالوجی دیکھ کر پوری دنیا رشک کرنے لگی۔یہ پہاڑوں میں رہنے والے جنگجو ،کیسی طاقت سے لڑنے نکلے ہیں، بے آب و گیاہ علاقوں میں رہنے والے،ایسے بم کیسے جھیل پائیں گے جو 35 ہزار فیٹ کی بلندی سے ان کو نیست و نابود کر دیتے ہیں۔

جہاں بم گرتا ہے ،وہاں سے آکسیجن ختم ہوجاتی ہے۔ماضی کے نیزوں، بھالوں سے محبت کرنے والے آج کروز میزائیل، ٹام ہاک ،اپاجی کو سب سے بڑی طاقت مانتے ہوئے، یہ دانشور ،مکھی کی طاقت کو نظر اند از کررہے تھے۔ایسے بم گراتے آج دو دہائیاں ہونے کو ہیں، یہ دانشور ان بوسیدہ کپڑے پہنے دانشوروں کی طاقت سے حیران و پریشان ہیں۔ان میزائلوں، ٹینکوں ،جہازوں میں ایسی کیا کمی ہے کہ کوئی کامیابی نصیب ہی نہیں ہورہی۔

یہ کس طاقت سے لڑائی مول لے بیٹھے ہیں جو ایک پہاڑ سے نکل کر سرحدیں پار کرتی،کئی پہاڑ، سمندر اپنی لپیٹ میں لے بیٹھی ہے۔ان جنگجوؤں کی عورتیں پیٹ میں بچہ لیے، پیٹ پر بم باندھ کر ،میزائل چلانے والوں کی بھیڑ میں آگھستی ہے۔ان کے بچے ہاتھ میں بم اٹھا کر سیٹلائیٹ کنٹرول خیموں میں گھس آتے ہیں۔پہاڑ کے دامن سے نکلے یہ جنگجو، پیرس، فرانس، امریکہ کے شہروں میں بم لیے کیسے پہنچ گئے۔

ایک مکھی نے اتنی طاقت کہاں سے سمیٹ لی کہ اس نے سب برباد کردیا۔ شاید یہ دانشور، جنگی محقق اور برین سیل ایسی مکھیوں کی تشکیل سے پہلے یہ بھول چکے تھے کہ اس لڑائی میں ہار صرف ان کی ہے۔ آج یہ آگ پوری دنیا میں پھیل چکی ہے۔صرف ایک طاقت نے اپنے آپ کو محفوظ بناتے پوری دنیا کو غیر محفوظ بنا دیا ہے ۔اسی مکھی اور کتے کی لڑائی میں کئی آج کئی battle fields آچکی ہیں اور وہ سب اپنے حصے کا خمیازہ بھگت رہی ہیں۔

انتہائی افسوس کے ساتھ راقم الحروف ایک ایسے ملک کا باسی ہے ،جو براہ راست اس لڑائی کی battle field بنادی گئی ہے۔ آج اس دیس میں کتے اور مکھی کی لڑائی لڑی جارہی ہے، جہاں اس دیس کے باسی پچھلی ایک دہائی سے باؤلی سپر پاور کے ڈو مور کے تماشے برداشت کررہے ہیں ،وہیں مکھی بھی ،ہر وار میں ہمیں شریک ٹھہرا کر،نقصان پہنچا رہی ہے، اور اس سب میں ہمارا حقیقی دشمن بھارت کشمیر کاز اور کرکٹ سے لے کر اپنے ہر عزائم اسی لڑائی میں ضم کرکے ہماری بربادی کا پلان بنائے ہے۔

اس لڑائی کی Mechanics بڑ ے بڑے دانشور آج بیان کرنے سے قاصر ہیں ،ہمیں صرف بہترین داخلہ اور خارجہ پالیسی سے اس لڑائی سے نہ صرف خود کو الگ کرنا ہے، بلکہ اس کے پردے میں چھپے حقیقی دشمن کو بے نقاب کرکے سبق بھی سکھانا ہے۔جس دن ہم یہ کرنے میں کامیاب ہوگئے، ہمارے ملک میں امن آجائے گا۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :