سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے

پیر 25 نومبر 2019

Dr Affan Qaiser

ڈاکٹر عفان قیصر

یہ سردیوں کی ایک دھند زدہ رات تھی۔مجھے سے ایک لڑکی نے رات کے آخری پہر ایک انجان نمبر سے رابطہ کی۔وہ میڈیکل سٹوڈنٹ تھی،ڈاکٹر بن رہی تھی۔ انتظامیہ کا ایک اعلی افسر جو خود ڈاکٹر نہیں تھا،اسے حاضری کم ہونے پر بلیک میل کررہا تھا۔ بدلے میں جو قیمت مانگی جارہی تھی،وہ بہت زیادہ تھی۔عزت کے سودے میں اس کا پورا مستقبل تھا،وہ مستقبل جس کے لیے وہ کئی راتیں جاگ کر،آنکھوں میں بہت سے خواب سجائے،یہاں تک آئی تھی۔

اس نے مجھے چند ثبوت بھیجنے کا وعدہ کیا،جو اسی رات کے آخری پہر ای میل بھی ہوگئے۔ اب میرا فرض تھا کہ میں اس کی مدد کرتا،اس کی آواز بلند کرنے میں اس کا ساتھ دیتا۔ ایک دو روز وہ گمنام لڑکی میرے رابطے میں رہی اور پھر اچانک غائب ہوگئی۔ میں نے خود اس سے رابطے کی کوشش کی،مگر وہ دھند میں کہیں کھو چکی تھی۔

(جاری ہے)

اس بات کو چار سال گزر گئے۔ میں بیوروکریسی کے ایک لوہے کے بنچ پر ایک کلرک کے ہاتھوں ذلیل ہورہا تھا۔

وہ صاحب میری فائل گم کرکے بیٹھے تھے،اس کا مطلب صاف تھا۔ اس کو ڈھونڈنے کے لیے نوٹوں کے روشنی درکار تھی،اور میں دینے کو تیار نہیں تھا۔ کئی بار شدید مجبور ہوکر سوچا کہ چار پیسے دوں جان چھڑاؤں،پھر عجیب سے وسوسے روک دیتے۔ اتنے میں اسی بینچ پر ساتھ ایک لڑکی آکر بیٹھی، میں کافی دیر اس کو پہچاننے کی کوشش کرتا رہا۔ پانچ دس منٹ بعد وہی کلرک صاحب کا منشی آیا،لڑکی نے ہاتھ پر پانچ ہزار کا نوٹ رکھا،ایک گھنٹے بعد اس لڑکی کے ہاتھ میں ایک کاغذ تھا،وہ خوشی خوشی لے کر چلی گئی۔

یعنی وہ کسی سرکاری کام کو نکلوانے آئے تھی،سیدھے نوٹ لگائے ،کام کیا اور چلتی بنی۔ میں لوہے کے بینچ پر لیٹا انہی کلرک کے فائل ڈھونڈنے کا انتظار کررہا تھا، مجھے ایک دم دھند میں چھپا چہرہ یاد آگیا۔یہ وہی لڑکی تھی،جس نے مجھ سے مدد مانگی تھی۔ میں نے اس لڑکی کی جانب دوڑ لگائی،اس کو روکا ،وہ مجھے پہچان گئی۔ میں نے اس سے پوچھا کہ تم نے اس کیس کا کیا کیا؟ مجھے سب کچھ بھیجنے کے بعد تم غائب کیوں ہوگئی؟ تو وہ مسکرا کر بولی،آپ کو اب بھی سمجھ نہیں آئی۔

اس نظام میں آگے بڑھنا ہے تو آپ کو اس سسٹم کے ساتھ چلنا پڑتا ہے۔ یہ لڑکی کے الفاظ مجھے میرے بہت سے سوالوں کے جواب دینے کو کافی تھے۔
آج میرے سامنے عروج اورنگزیب کی وڈیو تھی، وہ مشہور ہندوستانی شاعر بسمل عظیم آبادی کی نظم چیخ چیخ پر پڑھ رہی تھی، سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے۔ یہ طلباء کا گروہ تھا،جو فیض فیسٹیول میں باقی طلباء کو اپنے حقوق کی جنگ کے لیے مارچ کی دعوت دینے آیا تھا۔

اگر ان طلبا ء مارچ کے چارٹر آف ڈیمانڈ کو پڑھا جائے تو اس میں طلباء یونینز اور ملکی سیاست میں طلباء کے کردار کی بحالی ، یکساں نظام تعلیم کا فروغ ،چھو ٹے علاقوں کے طلباء کے لیے وافر تعلیمی سہولیات اور تعلیمی اداروں میں بلیک میلنگ اور جنسی ہراساں کرنے کے واقعات کی روک تھام کے مطالبات نمایاں تھے۔ کالی بربینڈڈ جیکٹ پہنے ،نام کو ایک برگر بچی ،یہ نعرے کیوں بلند کررہی تھی۔

عروج کا تعلق ایک غریب گھرانے سے ہے،وہ تعلیم کے بعد اب ایک سکول میں پڑھاتی ہے،اس وڈیو میں دوسرا شخص حیدر ہے،جو ایک کسان کا بیٹا ہے اور تیسرا رضا گیلانی ،جس نے تعلیم حاصل کی ،مگر وہ ایک ایپ پر ٹیکسی سروس کا حصہ ہے،اور ٹیکسی چلا کر ماہانہ چالیس ہزار کماتا ہے۔ میرے جیسا انسان جو ہمیشہ سے کالجوں یونیورسٹیوں میں سیاسی تنظیموں کا مخالف رہا، کہیں لسانی،کہیں مذہبی،کہیں کسی سیاسی پارٹی کے نام پر یوں طلباء طالبات کا اکٹھا ہونا،ہاسٹلز میں گروہ بنانا اور آپس میں جھگڑے ینا ،یہ سب مجھے ہضم نہیں ہوتا تھا۔

میں نے جس دور میں میڈیکل کالج کے ہاسٹل میں دن گزارے ،اس دور میں ایسی تنظیموں پر پابندی تھی،سو ہم نے چھوٹے موٹے جھگڑے تو دیکھے،مگر ان میں کوئی انقلاب والی بات نہیں دیکھی۔ مگر طلباء مارچ کے لیے چیخ چیخ کر سرفروشی کی نظم پڑھنے والی عروج کے فلسفے کو جب میں نے اس لڑکی کے دھند زدہ چہرے اور اپنی کلرک مافیا کے ہاتھوں بے بسی پر طاری کیا،تو مجھے عروج کی چیخیں سیدھی دل میں اترتی سنائی دیں۔

میں سوچنے لگا، کہ اس معاشرے میں جہاں طلباء کو سوائے بوجھ لادے گدھوں کے کچھ نہیں سمجھا جاتا وہاں عروج برگر لڑکی نہیں تھی، آپ عروج کو پردہ کروا دیجیے ، ان کے اور ان کی ساتھیوں کے سر پر دوپٹہ ڈال دیجیے لیکن آپ ان حقائق پر پردہ یا دوپٹہ کیسے ڈالیں گے کہ اس ملک میں یونیورسٹیز میں طلبا سیاسیات پڑھ تو سکتے ہیں لیکن ملکی سیاست پر بول نہیں سکتے یا کر نہیں سکتے ٓآپ ادب پڑھ تو سکتے ہیں لیکن ادب کے پہلے اصول ، آزادی اظہار ، کوکھل کر استعمال میں نہیں لاسکتے۔

گلگت بلتستان یا بلوچستان کے طلباء پنجاب پڑھنے تو آسکتے ہیں لیکن اپنے علاقوں کی محرومیوں پر بول نہیں سکتے۔ آپ ان کو آن لائن ایکٹیوزم کے زریعے کمیونزم یا سوشلزم کا طعنہ دیجیے ، فیض کی روح کو تڑپانے کا طعنہ دیجیے ، برگر ہونے کا طعنہ دیجیے ، طلبا ء کو سیاسی سرگرمیوں میں لاکر پڑھائی کا حرج ہونے کا بھی طعنہ دیجیے لیکن یہ بھی مدنظر رکھیے کہ فیض خود انہی انقلابی نظریات کے مالک تھے اور ان کا پرچار کرتے کرتے انہیں ایک وقت میں ملک تک چھوڑنا پڑا ، جالب بھی اسی طرح کے نظریات رکھتے تھے۔

سابق صدر ضیا ء الحق کے دور سے طلباء پر سیاسی سرگرمیوں کی پابندیاں لگنے کے بعد ملک میں رائج نمبر گیم والے غیر تخلیقی اور بے انصاف تعلیمی نظام سے کونسے آئن سٹائن پیدا کردیے ہیں یا ملکی سیاست میں آنے والے وڈیرہ کلچر سے سیاسی افق پر کونسے جناح ، لیاقت علی خاں یا بھٹو پیدا کر دیے ہیں ؟
آپکے کالجز اور یونیورسٹیوں سے ہر سال لاکھوں کی تعداد میں طلباء فارغ التحصیل ہوں اور سرکار آئے روز بیان دے کہ سرکار نوکریاں فراہم نہیں کرسکتی تو پھر یہ طلباء ایسے احتجاج منظم بھی نہ کریں تو کیا کریں ؟ ترقی پسند طلباء ہوں یا باقی مانندہ باشعور یونینز کے طلباء ،اپنے ان حقوق کی جنگ اگر چند مشترکہ نکات کے لیے ایک پلیٹ فارم سے لڑلیں اور ملکی مہنگی سیاست میں طلبا ء کی انٹری کو وقت کے ساتھ اگر ممکن بنوالیں، جس کی ماضی میں نظیربھی ملتی ہے ، تو یقین مانیں یہ نظریاتی اور پڑھے لکھے طلباء سیاست کے وڈیر ہ اور جاگیر دار کلچر سے بہت بہتر ثابت ہوں گے۔

یہ نہ صرف ملک سے وڈیرہ کلچر ختم کردیں گے، بلکہ حقیقی انقلاب بھی لے آئیں گے۔ کیا آپ چاہیں گے کہ آنے والی نسلوں کا مستقبل بھی ایسا ہو،جہاں ایک دھند میں کھوئی لڑکی کو سمجھوتے کرکے نظام میں آگے پڑھنا پڑے؟ جہاں ایک ڈاکٹر کو کرپشن کی گرد میں آلود میں نظام میں ایک کلرک کے ہاتھوں اپنے جائز کام کے لیے بلیک میل ہونا پڑے۔ جہاں رشوت اور سفارش کو نظام سے نکال لیں تو پورا نظام ہی پہیہ جام کردے۔

جس تبدیلی کا خواب خان نے دکھایا تھا، مجھے اس کی گونج عروج کی چیخوں میں سنائی دی ہے۔ خان کی تبدیلی کبھی نظام نہیں بدل سکتی،جب تک نظا م خود اپنے آپ کو بدلنے کی جہد نہیں کرے گا۔ کیا آپ میں سے کوئی بھی یہ چاہے گا ؟ کہ یہاں ایک ایسا تعلیمی نظام ہو کہ جہاں غریب کا بچہ ٹاٹ پر پڑھے، متوسط طبقے کا کسی گلی کے انگلش میڈیم میں اور امیر کا بچہ مہنگے ترین او اے لیول سکول میں اور پھر یہ سب میدان میں اکٹھے چھوڑ دیے جائیں، وہ میدان کہ جہاں درندے ان کے جسم ،جذبات اور جیبوں کو نوچنے کے لیے پہلے سے تیار بیٹھے ہوں؟ پھر ایک طرف سمجھوتے دکھائی دیں اور دوسری طرف عروج کی انقلاب پکارتی چیخوں کی گونج سنائی دے،
سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے
دیکھنا ہے زور کتنا بازو قاتل میں ہے
وقت آنے دے بتا دینگے تجھے اے آسماں
ہم ابھی سے کیا بتائیں کیا ہمارے دل میں ہے
کھینچ کر لائی ہے سب کو قتل ہونے کی امید
عاشقوں کا آج جمگھٹ کوچا اے قاتل میں ہے
یوں کھڑا مقتل میں کہہ رہا ہے بار بار
کہ تمنا اے شہادت بھی کسی کے دل میں ہے

ادارہ اردوپوائنٹ کا کالم نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تازہ ترین کالمز :